44

وعدے بہت دیکھے سرکار کے ہم نے

وعدے بہت دیکھے سرکار کے ہم نے

حکومت بدلنے سے ملکی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ،حکومت اور اپوزیشن کا ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا ہے ،اپوزیشن قیادت نئی حکومت کی پا لیسیوں کو حرف تنقید بنانے کے ساتھ خدشات کا بھی اظہار کررہے ہیںکہ ان کے خلاف کوئی مہم شروع ہو نے والی ہے ،

جبکہ حکومتی قیادت الزام عائد کررہی ہے کہ سابق حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں پنجاب کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ہے ،اس طرح دونوں جانب سے الزامات اور جوابی الزامات کا نہ حتم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، اس سارے عمل میں ملک و عوام متاثر ہو رہے ہیں ،لیکن اس کا دونوں کو ہی کوئی احساس نہیں ،اپنے مفادات کے حصول میںعوام کو مسلسل قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔
اس میں شک نہیں

کہ عوام ایک بار پھر آس لگائے بیٹھے تھے کہ گزشتہ حکومت پر مہنگائی ،بے روزگارے کے حوالے سے تنقید کرنے والی اپوزیشن برسر اقتدار آتے ہی عوام کیلئے رلیف کی فراہمی کے فوری اقدامات کرے گی ،لیکن اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال بالکل برعکس دکھائی دیے رہی ہے ،سابقہ حکومت جو الزامات اپنے وقت کی اپوزیشن پر لگاتی تھی ،وہی الزامات موجودہ حکومت بھی دہرارہی ہے ،

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے ملک کیلئے مشکلات پیدا کیں ہیں ،حکومت کا گلہ کرنا بنتا ہی نہیں ہے ،کیو نکہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی سب کچھ درست کرنے کے دعوئے کیا کرتے تھے ،اگر قدرت نے انہیں اقتدار دیے دیا ہے تو اپنے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے درپش مشکلات کو آسانیوں میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے ،لیکن وزیر خزانہ عوام کو رلیف دینے کی بجائے قیمتوں میں آٖضافے کا عندیہ دینے لگے ہیں۔
نئی حکومت کے قول وفعل کا تذادآتے ہی نظر آنے لگا ہے،ایک طرف وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ نیاپاکستان بنانے والوں نے عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا،غریب کا جینا مشکل بنا دیاگیا ہے تودوسری جانب مہنگائی کے ستائے عوام پر ایک بارپھر بجلی بم گراتے ہوئے فی یونٹ 2روپے 86پیسے کا اضافہ کردیااور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیا جارہا ہے، جو کہ عوام کیلئے ناقابل قبول ہو گا

،حکومت کا عوام کو رلیف دینے کی بجائے مہنگائی میں اضافہ کرنا ،حکومت کیلئے انتہائی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ،اپوزیشن پہلے ہی ملک گیر جلسے جلوس کررہی ہے ،عوام کی بے چینی انہیں بھی سڑکوں پر لاسکتی ہے،اگر حکومت نے بروقت عوام سے کیے گئے وعدوں کو عمل کے سانچے میں نہ ڈھلا تو عوام کی بدگمانی اور بڑھتا غم و غصہ حکومت سمیت سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی عوامی مسائل کے تدارک کی باتیں بہت کرتے ہیں

،مگر عملی طور پر دونوہی کی ترجیح عوامی مسائل نہیں ہیں ،حکومت اور اپوزیشن کی ترجیح اپنے ذاتی مسائل رہے ہیں اور انہیں ہی سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں، اپوزیشن اپنے جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومت کو دبائومیں لانا چاہتی ہے ،جبکہ حکومت سیاسی مقدمات کے ذریعے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں لگی ہے ، دونوں کی محاذ آرائی میںعوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،اس روش کو تبدیل کرنے اور پا لیسیوں کو دھارا عوام کے مسائل کی طرف موڑنے کی اشد ضرورت ہے ،حکومت اور اپوزیشن باہمی

اختلافات ضرور نمٹائیں ،لیکن کچھ توجہ قومی اور عوامی معاملات کی طرف بھی مبذول کروانی چاہئے،کیو نکہ بڑھتی مہنگائی اور بے روز گاری کا عفریت عوام کو نگلنے کیلئے تیار ہے ،حکومت کیلئے بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری اور ڈوبتی معیشت بڑے چیلنج ہیں ،اگر حکومت درپش چیلنجز سے نمٹنے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ دھینگا مشتی میں لگی رہے گی تو پھر اس کا بھی جلد ہی جانا ٹھر جائے گا۔
اس وقت پاکستان بطور ریاست اور بطور معاشرہ جس حال کو پہنچ چکا ہے ،اس صورت حال میں ہمیں ایک ایسے سربراہِ مملکت کی ضرورت ہے کہ جسے عوامی تکلیفوں اور پریشانیوں کا نہ صرف انتہائی احساس ہو،بلکہ وہ ان کے حل کے لیے مخلص ہو کر کچھ عملی اقدامات بھی کرے ،سابقہ دور اقتدار میں عمران خان عوام کو رلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کائوشیں کرتے رہے ،مو جودہ دورحکومت میں شہباز شریف

عوام کو سہولیات اور ریلیف فراہم کرنے کے لیے اعلانات کرتے نظر آتے ہیں ، لیکن تاحال سارے اعلانات اور اقدامات وعدوں کی شکل میں ہی دکھائی دے رہے ہیں،عوام نے آئے روز سر کارکے دعوئے اور وعدے بہت دیکھے ہیں ،اس کے باوجود انہیں وعدئوں اور وعوئوں کے سہارے ہی زندہ رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے ،یہ حکومت کے وعدے جب تک عمل کے سانچے میں نہیں ڈھلتے، انھیںعوام کیلئے صرف سہانے خواب ہی کہا جاسکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں