64

جمہوریت کی بقاء میں جمہور کی بقاء

جمہوریت کی بقاء میں جمہور کی بقاء

ہر نئی حکومت سے عوام کو نئے انداز حکمرانی کی توقع ہو تی ہے ،لیکن اس حکومت کے ابتدائی اقدامات نے ہی ایک بار پھر عوام کومایوس کردیا ہے ،یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکمران اشرافیہ نے اپنے ماضی کے تلخ تجربات اور غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ،وہی غلطیاں دوبارہ دہرائی جارہی ہیں،سابقہ حکومت نے عوامی مسائل کے تدارک کی بجائے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر زور رکھا ،

موجودہ حکومت بھی آتے ہی اپوزیشن کو دبانے میں لگی ہے،اس بڑھتی محاذ آرائی میں بھی وزیر اعظم شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ بہت جلد ملک و عوام کو تمام مشکلات سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے ،لیکن کیا نئی حکومت کے محض بلند بانگ دعوے اور دلفریب نعرے ان مشکلات اور مسائل کو کم کرسکتے ہیںکہ جو اس وقت پاکستان کے عوام کو درپیش ہیں،یہ دعوئے اور نعرے کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتے ،

لیکن اس کے باوجود عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے بڑے بڑے دعوئے بھی کیے جارہے ہیں اور دلفریب نعرے بھی لگائے جارہے ہیں۔ہمارا سب سے بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم مسائل کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیںاور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کیلئے الزام تراشیوں میں لگے ہوئے ہیں ، ملک پر جب حکمرانی کرنے والے ہر دم یہی پاٹھ پڑھانے کی کوشش کریں گے کہ ہم درست سمت میں گامزن ہیں اور ملک میںجو بھی کوئی کمی یا کمزوری دکھائی دیتی ہے،

وہ سابقہ حکمرانوں کا کیا دھرا ہے اور ہمیں ورثے میں ملا ہے تو کیسے درپیش مسائل سے چھٹکارہ ملے گا اور کیسے سیاسی بحران سے لے کر معاشی بحران تک پر قابو پایا جاسکے گا ،ہر نئی حکومت کے پاس جہاں سابقہ حکومت پر الزام تراشی کا مواد ہے تو وہیں بڑے بڑے بلندو بانگ دعوئے بھی بہت ہیں ،مگران دعوئوں کو عملی شکل دینے کیلئے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے ، اس لیے ہی ملک میں سیاسی بحران سے معاشی بحران تک میں کمی آنے کی بجائے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
نئی حکومت آتے ہی بحرانوں میں گھر گئی ہے ،مگریہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے کہ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت کا سازشی بیانیہ سیاسی اعتبار سے حکومت کیلئے جو مشکلات کھڑی کررہا ہے ،اس کے اثرات محض سیاست تک محدود نہیں ،بلکہ اس کے زیر اثرپورا معاشرہ ایک بڑے تنائو کا شکار ہورہا ہے ،یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو رہا ہے کہ جب ملکی معیشت خوفناک بھنور میں پھنسی ہے اور نئی حکومت سارے ہاتھ پائوں مارنے کے باوجو د معاشی بھنور سے نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں کرپارہی ہے

،یہ صورت حال قومی یکسوئی کی متقاضی ہے ،مگر ہمارے ہاں ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بھی اپنے محدود وقتی فوائد اور طے شدہ اہداف سے آگے دیکھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،ملکی حالات کیسے بھی رہیں ، معاشی حالات کتنے بھی خراب ہو جائیں،سیاسی قیات کی ترجیح کل بھی ذاتیات تھے اورآج بھی ذاتی مفادات کا ہی حصول ہے۔
اس وقت دنیا جس قسم کے حالات سے گزررہی ہے ،یہ وقت ذاتی مفادات کے حصول کا ہے نہ ہی سیاسی افراتفری کا متحمل ہو سکتا ہے ،مگر یہ افسوس ناک اتفاق صرف پا کستان میں نظر آرہا ہے کہ جہاںکی سیاسی قیادت نہ صرف ذاتی حصول مفاد کو ترجیح دیے رہی ہے ،بلکہ سیاسی کشیدگی بڑھانے کا بھی کوئی موقع جانے نہیں دیا جارہا ہے ،اگر سیاسی قائدین سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکیں گے

تو یہ ان کی ایک بھیانک غلطی ہو گی کہ جس کے اثرات انتہائی خطرناک ہوں گے ،کیو نکہ معاشی بد نظمی کے اثرات بتدریج جہاں عوام کو سیاسی جماعتوں سے بدظن کریں گے، وہیں انتخابات کے بعد بننے والی حکومت بھی سیاسی اعتبار سے ڈانواں ڈول ہی رہے گی ،یہ وقت سیاسی مغالطوں سے نکل کر حقیقی سطح پر قدم رکھنے کا ہے ،اس بات کو سیاسی قیادت جتنا جلد سمجھ لیں گے ،اس کے مفاد میں بہتر ہو گا ۔
حکومت بدل گئی ہے ،مگر ملک کے سیاسی حالات بحران کا شکار ہیں ،موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل اگلے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہے ،حکومت انتخابات کے اعلان میں جتنی دیر کرے گی ،سیاسی انتشار اتناہی بڑھتا چلا جائے گا ،حکومت عوامی حمایت کے لیے کچھ بڑے قدم ضرور اٹھانے،مگر اس کے ساتھ آئندہ انتخابات کے امور پر تحریک انصاف کو مذاکرات کی فوری دعوت بھی دینی چاہیے ،حکومت اور اپوزیشن کو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے افہام و تفہیم سے آگے بڑھنے کی کوشش کر نی چاہئے

اور دونوں کو ہی نظام سے باہر نکلنے اور نظام کو زمین بوس کرنے کی خود کش سیاست سے اجتناب کرنا چاہیے، اس کے لیے ضروری ہوگا کہ انتخابات کے شیڈول پر اتفاق کے ساتھ ہی تحریک انصاف اسمبلیوں میں واپس آجائے، تاکہ آئندہ انتخابات کو غیر متنازعہ، صاف و شفاف بنانے میں شراکت داری کی جاسکے ،جمہوری و پارلیمانی نظام کی بقا ہی میں سب کی بقا ہے،اگر جمہوریت گئی تو پھرسب ہی ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں