50

سرکاری ٹیچرز پیچھے کیوں؟  پوزیشن کیوں نہیں آتی؟

سرکاری ٹیچرز پیچھے کیوں؟  پوزیشن کیوں نہیں آتی؟

تحریر: زمرد سلطانہ

اگر آپ کسی دور دراز گاوں کے  سرکاری پرائمری سکول کے سٹاف پر نظر دوڑائیں تو آپ کو اعلی تعلیم یافتہ سٹاف ملے گا۔ ان معزز اساتذہ کرام کی ڈگریاں اور قابلیت ایم فل، پی ایچ ڈی اور ماسٹرز سے کم نہیں ہوتیں ۔ انہیں ہر سال ٹیچر ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ سکول اساتذہ کے لئے بیماری فوتگی یا کسی بھی ایمرجنسی تک میں چھٹی کا تصور انتہائی مشکل ترین مرحلہ ہے۔ دو سے تین قسم کے مانیٹرنگ سسٹم مثلا فوجی صاحب

اور دیگر افسران ریگولر بنیادوں پر چیکنگ کرتے ہیں اور اچانک چھاپے مارتے ہیں۔ قریبی علاقوں سے بچوں کو داخلے کیلئے راضی کرنے اور چھٹی و دیگر صورتوں میں بچوں کی حاضری یقینی بنانے کی ذمہ داری بھی انہی اساتذہ کرام پر ہے۔ 90 فیصد حاضری سے کم پر جرمانے ہوتے ہیں اور ہر ماہ سکولز ڈپارٹمنٹ اپنی درجہ بندی بھی جاری کرتا ہے۔ اعلی ترین تعلیم یافتہ فیکلٹی اور ٹریننگ کے باوجود یہ سکولز منفی پروپیگنڈا کا کیوں شکار ہیں؟؟ اس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قریب ہی ایک ایسا پرائیویٹ سکول جہاں میٹرک پاس ٹیچرز ہوتے ہیں ان کو ترجیح دینے کی کیا وجوہات ہیں۔؟؟؟

بات سادہ سی ہے کہ حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں میں ٹیچرز تو بھرتی کئے ہیں لیکن انفراسٹرکچر بہتر بنانے کیلئے دیگر اقدامات نہیں اٹھائے۔  ان پر سختی تو خوب کی گئی ہے اور نگرانی کے نظام بھی ہیں لیکن فرنیچر پورا نہیں ہوتا اور عمارت ناکافی۔ بچوں کے لئے بیٹھنے کے کمرے بھی پورے نہیں ہوتے۔  پرائیویٹ سکولز والے والدین کو شیشے میں اتارتے ہیں فنکشنز کے نام پر تقریبات منعقد کرتے ہیں

مختلف ایکٹیویٹیز کراتے ہیں جو کہ سرکاری اداروں میں ممکن نہیں۔ یقین مانیں اگر صرف پچاس روپے لانے کو کہا جائے تو تین چوتھائی بچوں کے والدین افورڈ نہیں کر سکتے۔ بچوں کے یونیفارم پورے نہیں ہوتے اور نہ سٹیشنری۔ کتب ایک بار تو حکومت دے دیتی ہے لیکن اگر پھٹ جائیں تو دوبارہ خریدنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ سکولز فنڈ میں بچوں کو سردی گرمی سے بچانے کے اہتمام کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔

حتی کہ ٹھنڈے پانی کا حصول اور خراب ہو جانے پر بلب تک تبدیل کرنے کے لئے باقاعدہ سوچ بچار کرنی پڑتی ہے  کہ کس فنڈ سے پیسے نکالے جائیں۔  اسی طرح یہ بچے ایسے خاندانوں سے ہوتے ہیں جن کیلئے تعلیم پہلی ترجیح نہیں ہوتی۔ گندم کی کٹائی۔ دوکان میں کوئی کام یا کوئی مصروفیات تو سب سے پہلے بچے کی سکول سے چھٹی کرا لی جاتی ہے۔ ان بچوں کو پڑھنے کیلئے گھر پر سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں جیسا کہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں روشنی وغیرہ کا اہتمام۔ اکثر بچے والدین کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے ہیں

۔ وہ پاس تو ہو جاتے ہیں لیکن اعلی نمبرز نہیں لے پاتے۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات دینے۔ ان کے والدین سے رابطے کے لیے فون کالز وغیرہ کے وسائل سرکاری اداروں میں دستیاب نہیں ہوتے۔ سب سے بڑھ کر ایڈورٹائزنگ کے اخراجات تو بلکل بھی نہیں جبکہ پرائیویٹ ادارے ہر چوک چوراہے میں خوبصورت فلیکس سجا کر مائل کرتے ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہوتے

۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈرائنگ کے لئے صرف ٹیلنٹ کی ہی نہیں کلرز اور کاپیوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تقریری مقابلوں اور دیگر ٹیلنٹ ہنٹ پروگرامز میں شرکت کے لئے اخراجات درکار ہوتے ہیں جو کہ ان بچوں کے پاس نہیں ہوتے۔ پرائیوٹ ادارے اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، وہاں کے بچے آئے روز کلرز ڈے مناتے ہیں، فنکشنز کرتے ہیں، پرفارمنس دیتے ہیں اور والدین انتہائی خوش کہ معیار انتہائی اچھا ہے۔یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایم فل۔ ماسٹرز گورنمنٹ ٹیچرز میٹرک پاس سٹاف والے سکولز سے پیچھے نظر آتے ہیں
حکومت ایک تجربہ کر سکتی ہے۔ صرف دو سے تین سال یہ اصول بنایا جائے کہ صرف سرکاری سکولز میں پڑھنے والوں کو سرکاری کالجز اور پھر گورنمنٹ یونیورسٹیوں میں داخلہ ملے گا۔ یقین مانیں یکدم سب کچھ بدل جائے گا اور سرکاری سکولز و کالجز کے بچے ٹاپ پوزیشنز پر نظر آئیں گے۔  سوال تو یہ بھی ہے کہ پرائیوٹ سکولز و کالجز کے بچے تو پوزیشنز لیتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ اچھے نمبروں والوں کو مائل کر لیتے ہیں لیکن پرائیوٹ یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز  کے طلبہ و طالبات کیونکر اتنے کامیاب نہیں۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں معاشرے کی کریم اکھٹی کی جائے گی وہیں سے اچھے رزلٹ بھی ملیں گے۔ پرائیوٹ سکولز و کالجز اپنے وسائل کی بنیاد پراور سہولیات کے لالچ میں اچھے اسٹوڈنٹس کی کریم اکھٹی کرتے ہیں اور پوزیشنز لیکر خوب تشہیر کرتے ہیں۔ لاکھوں کے انعامات اور موٹر سائیکل و گاڑیاں تک انعام میں دیتے ہیں۔ کیونکہ انہی بچوں کی پوزیشنز اور اچھے نمبروں کی تشہیر سے ان کا کاروبار چلتا ہے سرکاری سکولز و کالجز کے پاس ایسی کوئی مراعات اور سہولیات نہیں ہوتیں جو کہ

ان ذہین طلبہ و طالبات کو آفر کی جا سکیں۔ ان کے حصے میں کم وسائل رکھنے والے طبقات کے بچے آتے ہیں جن کی پہلی ترجیح تعلیم نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصد صرف پاس ہو کر کسی مناسب نوکری کی تلاش ہوتا ہے، بلکہ اکثر تو دوران تعلیم بھی محنت مزدوری کر خرچہ پورا کرلیتے ہیں۔ ان کے پاس پڑھائی کے اوقات اور وسائل بھی محدود ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بمشکل پاس ہو جاتے ہیں اچھے نمبرز نہیں لے پاتے۔ 
سرکاری سکولز و کالجز کے کچھ یہی مسائل ہیں جن کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اگر ان کیلئے فنڈز کی فراہمی اور سٹاف کے علاوہ چند ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے تو ان کی کارکردگی بہترین ہو سکتی ہے۔  طلبہ و طالبات کی اچھی تعلیمی کارکردگی کے لئے سٹاف کی اعلی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ان امور کے بارے غور کیا جائے تو ہی سرکاری ادارے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور ان کی بھی بورڈ میں پوزیشنز آسکتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں