40

حکومت ایسے نہیں چلے گی

حکومت ایسے نہیں چلے گی

تحریک انصاف قیادت کا انتخابات کا تقاضا آئے روز بڑھتا ہی جارہاہے ،جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ( ن) قیادت لندن یاترا کے بعد بھی گومگو کی کیفیت میں ہے کہ آیا فوری انتخابات کروادیئے جائیں یا پھر حکومت اپنے وقت پر کروائے، آصف زرداری اپنا نقطہ ٔ نظردوٹوک انداز میںواضح کرچکے ہیںکہ فوری انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں ، انتخابی اصلاحات مکمل کرنے کے بعد ہی انتخابات کا ڈول ڈالاجائے گا،

اس طرح ہی کے خیالات مولانافضل الرحمٰن اور دیگرحکومتی اتحادیوں کے بھی ہیں،لیکن ملک میں جس تیزی کے ساتھ سیاسی و معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے ،اس میں حکومت ایسے زیادہ دیر تک چل پائے گی نہ ہی انتخابات سے بھاگ پائے گی ،حکومت کو جلد از جلد انتخابات کروانے ہی پڑیں گے ۔
یہ امر واضح ہے کہ ملک میں بھان متی کا کنبہ یا جوڑ توڑ کر حکومتیں بنانے کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلے ہیں،تاہم اس کے باوجود ناکامم تجربات بار بار دہرائے جارہے ہیں ، عمران خان حکومت جس طرح گروائی گئی ، اسی طرح پی ڈی ایم حکومت بنوائی گئی ہے،اس حکومت میںایک دوسرے کے ازلی مخالفین اکھٹے کیے گئے ہیں،یہ ایک دوسرے کے مخالف کب تک ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹے چلیں گے ،

یہ کبھی اپنی حکومت کے فیصلوں کو تسلیم کریں گے نہ حکومت کے ساتھ زیادہ دیر تک چلیں گے ،یہ مفادات کے زیر اثر جڑے ہیں اور مفادات کے حصول تک ہی اکھٹے رہیں گے ،حکومتی قیادت کو بھی بخوبی احساس ہو گیا ہے کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے ،اس لیے ہی وزیراعظم اپنی کابینہ سمیت بڑی فیصلہ سازی کیلئے لندن چلے گئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف اپنی کابینہ سمیت لندن سے واپس آچکے ہیں ، وہ لندن میں زیادہ دیر تک قیام کر بھی نہیںسکتے تھے ،کیونکہ ایک طرف اتحادی اپنی من مانیاں کرنے لگے تو دوسر جانب انہیں حکومت مخالف تحریک کا بھی شدت سے سامنا ہے ، پی ٹی آئی کی حکومت مخالف تحریک آئے روز زور پکڑتی جارہی ہے

اوراس کے سامنے موجودہ حکومت بے بس دکھائی دینے لگی ہے، عمران خان نے سب کو الیکشن کمین پر اپنے پیچھے لگا لیا ہے ، ملک کی ساری ہی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں جلسے کرنے لگے ہیں،جبکہ عوام کا دن بدن بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری سے براحال ہے ،اس سے قبل عوام سابقہ حکومت کو روتے تھے کہ اس نے مہنگائی آسمان پر پہنچادی ہے، لیکن تیرہ جماعتوں کی حکومت نے تو صرف ایک ماہ میں مہنگائی کے تمام سابقہ ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں، وہ اشیائے خورو نوش جو پاکستان میں پیدا ہوتی اور یہیں استعمال ہوتی ہیں، ان کی قیمتیں بھی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
مسلم لیگ (ن )قیادت اقتدار میں آنے سے قبل دعوئیدار تھی کہ ہمیں موقع ملا تو آتے ہی عوام کی حالات زار بدل دیں گے ، مہنگائی ،بے روز گاری کا خاتمہ کریں گے ،مگر حکومت میںآنے کے بعد وزیر اعظم کی آنیاں جانیاں کے علاوہ کچھ بھی ہو تا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،وزیر اعظم نے لندن سے واپس آنے پر اپنے اتحادیوں کا اجلاس تو بلالیا ہے ،لیکن اس اجلاس کے بھی کوئی اچھے رزلٹ نکلتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں

،اس طرح ہی ان کے بیرونی دوروں کے نتائج بھی حوصلہ افزانہیں رہے ہیں، دوست ممالک نے وزیر اعظم کو خالی ہاتھ ہی واپس بھیجنا مناسب سمجھا ہے ،یار دوست سمجھتے ہیں کہ اس عارضی حکومت سے کیا دوستی کرنی ہے،انہوں نے آئندہ منتخب ہونے والی حکومت سے تعلقات استور کرنے کو ترجیح دی ہے،موجودہ حکومت ملک کے اندر اور باہر دونوں محاذ پر ناکام ہوتی دکھائی دیے رہی ہے۔
موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کا ہی ایک سہارا رہ گیا ہے ، جبکہ عالمی مالیاتی ادارہ ایک ارب ڈالر کے قریب قرض کی قسط کو تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مشروط کر چکا ہے ، اگر پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوا تو اندازہ کیجیے کہ پاکستانی معیشت پر کیا قیامت ٹوٹے گی اور اس معاشی قیامت میں حکومت کیسے چلے گی ، حکومت چلانے کیلئے کوئی ایسی بیچ کی راہ نکالنا ہوگی کہ جو عوام اور معیشت کیلئے قابل برداشت ہو سکے

،اگراس وقت حکومت چل نہیںپارہی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ حکومت کی تو جہ غیر معتدل حالات میں بٹ کررہ گئی ہے ،اس کیفیت سے فوری نکلنا پڑے گا ،کیو نکہ حکومت جب تک کسی ٹھوس ،جامع اور واضح سیاسی ومعاشی پلان کے ساتھ سامنے نہیں آئے گی ،اس وقت تک درپیش بحرانوں سے نمٹنا ناممکن دکھائی دیتاہے۔
حکومتی اتحادی اقتدار میں آنے سے قبل بڑے بڑے عوئے کرتے رہے ہیں کہ ان کے پاس سیاسی و معاشی پلان موجود ہیں اور وقت آنے پر نہ صرف عوام کو بتائیں گے ،بلکہ انہیں پلانوں پر عمل در آمد کرتے ہوئے ملک کو سارے بحرانوں سے نجات بھی دلائیں گے ،حکومت ملنے کے بعد وزارتوں کی بندر بانٹ میں سب دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ، وزیر اعظم سارا وقت کبھی اتحادیوں کو منانے اور کبھی بڑے فیصلے کروانے کیلئے دوڑیں لگا رہے ہیں،اس طرح کی ڈوڑ دھوپ سے فیصلہ سازی کی جاسکتی ہے

نہ ہی حکومت زیادہ دیر تک چلائی جاسکتی ہے ، حکومت ایسے تو نہیں چلے گی ،حکومت چلانے کیلئے بڑے فیصلوں کے ساتھ سارا بوجھ بھی خودہی اُٹھانا پڑے گا، حکومتی اتحادی اقتدار میں ضرورساتھ دیں گے ،مگر حکومتی بوجھ اُٹھانے میں کبھی ساتھ نہیں دیں گے، اس لیے وزیر اعظم شہباز شریف کو کبھی لندن اور کبھی اپنے اتحادیوں کی جانب دیکھتے رہنے کی بجا جو فیصلے کرنے ہیں‘ وہ اب بلاتاخیر کرلینے چاہیے، بصورت دیگر ان کیلئے حکومت کے ساتھ اپنی سیاست بچانا بھی مشکل ہو جائے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں