سیای اُفق پر بے یقینی کے سائے
کہ حکومت کے پاس امریکا اور آئی ایم ایف کے احکامات ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ،ایک طرف وزیر اعظم بڑے فیصلوں کا بوجھ مل کت اُٹھانے کی بات کررہے ہیں تو دوسری جانب مریم نوازدوسروں کا بوجھ اُ ٹھانے کی بجائے انتخابات کروانے کو ترجیح دیے رہی ہیں،حکومتی اتحادیوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ سارا ملبہ خود پر لاد کر حکومت چلائیں کہ انتخابات میں جاکر اپنی سیاست بچائیں ،انہیں آگے سمندر اور پیچھے گہری کھائی دیکھائی دیے رہی ہے ۔
اس میں شک نہیں
اس وقت ڈالر 200 روپے سے بھی تجاوز کرگیا ہے، نئی حکومت آنے کے بعد صرف ایک ماہ میں ڈالر کی قیمت میں 15 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے،لیکن حکومت ابھی تک طے ہی نہیں کر پارہی ہے کہ سارا بوجھ کس نے کیسے اُٹھانا ہے۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادت وزیر اعظم سے مل کر یقین دھانیاں کر چکے ہیں کہ حکومت میں آئے ہیں تو سب مل کر ہی بوجھ اُٹھائیں گے ،مگر وزیر اعظم شہباز شریف کو یقین نہیں آرہا ہے ،اس لیے ساتھ ہوتے ہو ئے بھی گارنٹی لانے والوں سے مانگی جارہی ہے ،حکومت صرف اتحادیوں کی نہیں ،بلکہ اپنی حکومت کی ڈیڑھ سالہ مدت کی بھی گارٹی چاہتی ہے ،لیکن انہیں کہیں سے کوئی گارٹی نہیں مل رہی ہے
،لیکن اس بار عوام کسی دھوکے فریب میں نہیں آئیں گے۔حکومتی اتحاد دوسروں کے سہارے اقتدار میںتو آگئے ہیں ،مگر انہیں بہت کم مدت میں کچھ کرکے دکھانا پڑے گا ،دوسر صورت میں انتخابات میں جانا پڑے گا ،لیکن انہیں وہاں آپنی شکست صاف دکھائی دیے رہی ہے ،اس صورت حال میں حکومت کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ تمام اتحادی مل کر سخت معاشی فیصلے کریں، تا کہ ایک طرف خود کو بچانے کے ساتھ ملک کو بھی ڈیفالٹ کے خطرے سے بچا جاسکے،حکومتی اتحادیوں کو ملک سے زیادہ خود کی فکر ہے ،
اس ساری سیاسی ہلچل کے باوجود حکومت کی اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پورے کرے گی، اس بارے تحریک عدم اعتماد کے منصوبہ ساز آصف علی زرداری کچھ زیادہ ہی پرُاعتماد دکھائی دیتے ہیں، لیکن بدلتے سیاسی حالات حکومت کے حق میں نہیں جارہے ہیں،ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی اور معاشی اْفق پر بے یقینی کے سائے مزید گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں،
کہ اسے کوئی گھبراہٹ نہیں ،مگر اندر سے نہ صرف گھبرائی ہے ،بلکہ ٹانگیں بھی کا نپ لگیں ہیں،اس سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کا خاتمہ نئے انتخابات کے انعقاد سے ہی ممکن ہے،حکومت انتخابات کا جلد از جلد اعلان کر کے ہی سیاسی خلفشار اوربے یقینی کی کیفت سے باہر نکل سکتی ہے،بصورت دیگر سیای اُفق پر گہرے ہوتے بے یقینی کے سائے میں سب کچھ ہی ڈوب جائے گا