50

بھارت میں ممکنہ وقوع پذیر ہونے والے مسلم نسل کش فساد پر ایک نظر

بھارت میں ممکنہ وقوع پذیر ہونے والے مسلم نسل کش فساد پر ایک نظر

۔ نقاش نائطی
۔ +9665677707

آرایس ایس، بجرنگ دل، جیسی شدت پسند ھندو مذہبی پارٹیوں کی طرف سے، کیا بھارت میں مستقبل میں، مسلم کش فساد کا کوئی منصوبہ وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے؟ جو خبریں سائبر میڈیا پر گردش کرتے کرتے، آج کل یورپ و امریکی میڈیا پر دھڑلے سے موضوع بحث بنی ہوئی ہیں، اسے دیکھ،اس ممکنہ وقوع پذیر ہونے والے حادثہ کو سرے سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے
کورونا وبا دوران، سنگھی مودی یوگی

جیسے حکمرانوں کی نا اہلی اور ناعاقبت اندئش فیصلوں سے، شمالی ھند کے کروڑوں پرواسی مزدوروں کا جنوب کی مختلف ریاستوں میں پھنسنا اور صرف چند گھنٹوں کی پیشگی اطلاع سے، دیش بھر میں ہوائی ریل و روڈ سفر پر پابندی کے چلتے، اوپر سے بھارت کی ترقیات کی ضامن، مختلف صوبوں میں پھنس کر رہ گئے کروڑوں پرواسی مزدورں کو روزگار بھتہ الاؤنس یا انکے کھانے پینے کا انتظام کرنےتک میں ناکام سنگھی حکومت کے پیش نظر، جب کروڑوں پرواسی مزدور،

اپنی آل اولاد کے ساتھ،اپنے پیروں پر پیدل چلتے، ہر گاؤں شہر کی شاہراہوں پر، اپنے اپنے گاؤں کی طرف رواں دواں تھے۔ تب کورونا کی مار جھیل رہے، بھارت کے ہم مسلمان، دو سال قبل کے رمضان مہینے میں، خود بھوکے پیاسے رہتے ہوئے بھی، اپنے اپنے گاؤں شہر سے متصل شاہراوں پر، ان پرواسی مزدوروں کے بیج،پانی جوس، کھانا و امدادی سامان،فری میں تقسیم کرتے، کروڑوں پرواسی مزدوروں کی مدد کرتے پائے جارہے تھے۔ آبادی ھند کے پانچویں حصہ کے ہم مسلمانوں نے، کل بھارت کی تمام شاہراوں پر قائم مختلف رفاعی مراکز کے تحت، نصف سے زائد ایسے رفاعی خدمات انجام دئیے تھے۔

متعدی کورونا سقم ابتدائی دور میں، اپنے 24/7 مکرر نشر کئے جانے والے سنگھی حکومتی بکاؤ بھونپو میڈیا پرچار سے، ملک میں کورونا وبا پھیلانے، تبلیغی جماعت و ہم مسلمین کو نشانہ بناتے تناظرمیں بھی، متعدی کورونا وبا سے، جان بحق غیر مسلم اپنوں کے پارتو شریر کو، جب انکےاپنے سگے سنبندھیوں نے آخری رسومات ادائگی تک سے انکار کردیا تھا تو، دیش بھر کے مختلف صوبوں شہروں گاؤں کے ہم مسلمانوں نے، اگر بڑھ کر مختلف این جی اوز کے بینر تلے، ملک کے مختلف حصوں میں،

برادران وطن کے اعزہ و اقرباء کے مہلوک رشتہ داروں کی آخری رسومات، انہی کے مذہبی اقدار کی روشنی میں ادا کرتے ہوئے، انسانیت نوازی کی زندہ مثال ملک بھر میں قائم کی تھیں۔ھندوؤں کے ویر سمراٹ، ہمارے مہاں پرائم منسٹر مودی مہان اور یوگی جی کے پانچ ریاستی انتخاب جیتنے کے چکر میں، کمبھ میلوں کی اجازت دیتے اور سنگھی انتخابی ریلیوں سے، کورونا وبا وکرال روپ اختیار کرتے پس منظر میں، ڈبلیو ھیچ او اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمار مطابق،صرف کورونا فیس 2 دوران؟ بھارتیہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے 60 لاکھ تک جب پہنچی تھی، تب بھارتیہ سیاست میں سرگرم عمل، آریس ایس، بی جے پی بجرنگ دل و اسکی متعدد ذیلی تنظیموں سے جڑے لاکھوں کروڑوں کاریہ کرتا،

جب دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کے بجائے، سیاسی گلیاروں میں اپنے اپنے اثر و رسوخ تعلقات کے چلتے، کورونا دوائیاں، آکسیجن سلنڈر، یہاں تک کے ہاسپٹل بیڈ تک کی کالا بازاری کئے، دونوں یاتھوں سے مرتی انسانیت کو لوٹ رہے تھے، یہ دیش کے ہم مسلمان ہی تھے جنہوں نے اپنے آبادی تناسب سے کہیں زیادہ تناسب سے، مختلف رفاعی انجمنیں قائم کئے، دکھتی مرتی انسانیت کے بیچ، کورونا دوائیاں اور آکسیجن

سلنڈر فری مہیا کروانے کا،نہ صرف ایک لامتناہی تسلسل قائم کیا تھا، بلکہ کورونا کے باعث بند پڑی اپنی مسجدوں میں، فری دوائیاں، فری آکسیجن اور فری وینٹیلٹر سے لیس، عارضی ہاسپٹل قائم کئے، جس بہتر انداز انسانیت و ھندو برادران کی خدمت کی تھیں، اس کی نظیر ملنی ناممکن نہ صحیح مشکل تر ضرور ہے۔ کورونا فیس 2، ہوئی اموات اور سنگھی مودی یوگی کی ناعاقبت اندئش تجاہل عارفانہ حکومتی پالیسیز کے چلتے،مرتی دم توڑتی انسانیت، خصوصا ھندو برادران کے مہلوک پارتو شریر، انتم سنسکار سہولیات نہ پہنچائے،اس سنگھی حکومتی پس منظر میں،ہزاروں ھندوؤں کا اپنوں کے پارتو شریر کو، گنگامیں بہاتے مناظر، یا گنگا کنارے رہت میں دباتے ہزاروں پارتو شریر کو، گدھ، کوئے، کتے، نوچ کھاتے لائیو مناظر کو عالمی میڈیا پر دکھائے جانے کے بعد تو، ایک حد تک بھارتیہ ھندو اکثریت کو، ان کی اپنی تساہلی سے، ان پر حکومت کرتے نااہل سنگھی بریگیڈ کی حقیقت آشکار ہوئی تھی

ایسے ہزاروں کلومیٹر کا سفر پیدل طہ کرتے،مرتے دم توڑتے اپنے اپنے گھروں کو پہنچنے والے ان کروڑوں یوپی بہار کے پرواسی مزدوروں سے،اور اپنے سنگھی حکمرانوں کی بےحسی سے 50 لاکھ سے زاید اپنوں کو، اس کورونا کال فیس 2 میں کھوئے، کروڑوں متاثرین خاندانوں سےیہی توقعات تھیں کہ وہ آنےوالے یوپی انتخابات میں، ان سنگھی مودی یوگی حکومت کو سبق سکھاتے ہوئے، اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرتے پائے جائیں گے۔ لیکن یوپی سمیت پانچ ریاستی انتخابی نتائج، بالکل الٹ نکلے ۔

اس کا مطلب صاف ہے کہ بھارت کے ھندو عوام، ان ناعاقبت اندیش سنگھی حکمرانوں کے، ہر ظلم و ستم کو سہنے، برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں، لیکن بھارت پر 800 سو سال نہایت چین و آشتی کے ساتھ،ان پر حکومت کرنے والے، ہم مسلمانوں کو سبق سکھانے والے،اس سنگھی آر ایس آیس، بی جے پی قوتوں کو اقتدار سے، کسی صورت محروم نہیں کرنا چاہتے ییں۔ اگر ہمارا یہ نظریہ غلط ہے تو دیش واسیوں کو قبول کرنا پڑیگا کہ بھارت پر حکومت کر رہی مودی یوگی سرکار،بھارت کے جمہوری اقدار کا گلا گھونٹے ہوئے، اپنے ای وی ایم جن بھوت کی مدد سے، عوام کی مرضی کے خلاف، انتخاب جیتتے ہوئے، بھارت کو معشیتی و معاشرتی طور تباہ و برباد کئے جا رہی پے

ثانیا 2014 سے پہلے کانگریسی منموہن سرکار کے وقت کی سب سے تیز ترقی پذیر معشیت کو، تباہ و برباد کرتے ہوئے، دو کروڑ سالانہ روزگار دینے کا انتخابی وعدہ کرنےوالوں نے، پہلے سے کانگریسی راج میں نوکریوں پر رہے 15 کروڑ بھارت واسیوں کو،روزگار سے بےدخل کئے، بڑھتی بے روزگاری، مہنگائی کی مار جھیل رہے بھارت میں، پڑوسی سری لنکا طرز عوام کا غم و غصہ، ان سنگھی حکمرانوں کے

خلاف، جن آندولن اور سڑک جام احتجاج کے بجائے ، آج بھی عام بھارتیہ ھندوؤں کے درمیان، مودی مودی کی اٹھتی مودی بھگتی یا سنگھ بھگتی کی گونج، کہیں نہ کہیں بھارت واسی عام ھندوؤں میں، سابقہ 7 سالہ مودی یوگی راج میں، دیش کے ہم پانچویں حصہ آبادی،کم و بیش 30 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں کو، بھارت واسی ھندوؤں میں سرایت کر گئی مسلم دشمنی کی فکر جاگزین ہوئی لگتی ہے

ثالثا ہم مشرقی ملکی عوامی جذباتی سوچ کی بنسبت ،یورپ و امریکی عوامی سوچ، حقائق سے قریب تر ہوا کرتی ہے،اور عالمی سطح پر ،مختلف رفاعی کام کرنے والے اداروں نے،عالم کے مختلف حصوں میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف عوامل کے پیش نظر، جو اعداد و شمار اکٹھے کئے ہیں، ان اعداد و شمار کی روشنی میں، وہ یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ، سابقہ 7 سالا سنگھی مودی یوگی راج میں، بھارت کے ہم مسلمانوں کے

خلاف، حکومتی سرپرستی میں منظم انداز، منافرت جو پھیلائی جارہی ہے اور عالم کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں، سابقہ ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث کے رہتے ہوئے بھی،جو مودی یوگی راج میں مختلف نوع کی قانون سازی کرتے ہوئے، مسلم اقلیت کو، جس نوع تنگ کیا جارہا ہے، اس سے انہیں لگتا ہے اگر 2024 عام انتخاب،جیتنے کے لئے، بی جی پی،کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، وہ برما کے روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کئے جیسا، مسلم نسل کش فساد کرواتے بھی پائی جاتی سکتی ہے

آج کے اس تمدنی ترقی پزیر دور میں ،جب عالم کے ایوانوں میں، مسلم ممالک کی بہتات ہوتے ہوئے بھی، اولا” زوال خلافت عثمانیہ بعد والے، ان سو سالوں میں، عالمی حربی اعتبار سے، مسلم حربی قوت کےمفقود ہوتے تناظر میں تو،دوسری طرف مسلم ممالک کو بھی مذہب پر معشیتی سوچ کو غالب رکھتے اکساتے پس منظر میں، پیٹرو ڈالر سے مالا مال، عرب ممالک کے بھارت سے ہونے والےتجارتی معاہدے، جہاں عالمی مسلم مسائل پر،ان عرب ممالک کی صرف نظر کرتی سوچ، غالب آتی نظر آتی ہے،

وہیں پر مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا کےمشرقی تیمور مسیحی اکثریتی علاقے کے ساتھ ہی ساتھ، شمالی سوڈان مسیحی اکثریتی علاقے میں،عالمی ایوانوں میں، مسلم مملکتی بے حسی کا شکار بنے، اور 73 سالہ کشمیر و فلسطین کے، ان سلجھے جمود کا شکار بنے معاملہ کے پیش نظر، عالمی یہود ونصاری حربی مداخلت کے زیر اثر، ملیشیا و سوڈان دونوں جگہوں پر آزاد مسیحی ریاستوں کا قیام، سکوت خلافت عثمانیہ بعد والی عالمی مسلم، بے بسی کا زندہ ثبوت، ہم ایک چوتھائی عالم کی مسلم آبادی کے منھ چڑانے کافی لگتا ہے

۔ ایسے میں، اس وقت کے سنگھی پی ایم واجپائی کے دور اقتدار میں، مئی 1998 عمل پذیر ہوئے، “مسکراتے بدھا فیس 2 پھوکرن ایٹمی” تجربہ کے تقابل میں، معشیتی آعتبار سے کمزور ترین ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کو، اپنی محدود صلاحیتوں کے باوجود، عالمی ایٹمی قوت کے ساتھ ہی ساتھ، عالمی اعتبار سے،عالم کی پانچویں بڑی حربی قوت بن ابھرنے کا موقع دیتے پس منظر میں، اور 2023 سو سالہ لؤزین عقد ترکیہ کے اختتام بعد، موجودہ آلات حربی، ڈروں سازی و آگ اگلتے بمبار طیارہ سازی میں یکتایئت پاتے،

ملک ترکیہ و پاکستان گڑھ جوڑ سے، عالم کی مسلم امہ سے، جو امیدیں وابستہ کئے بیٹھی تھیں، پاکستانی منتخب عمران خان حکومت کے تختہ الٹ، صاحب امریکہ کے، انکے اپنے اشاروں پر ناچتے شریف حکومت کے قیام نے،مسلم امہ کے لئے جہاں پریشانی والے حالات پیدا کئے ہیں، وہیں پر، یورپ و امریکہ کے پیشین گوئی کردہ سنگھی ذہنیت ممکنہ وقوع پذیر ہونے والے، مسلم کش فساد کے سلسلے میں بھی، مسلم امہ ھند میں پائے جانے والا اضطراب واجبی سا لگتا ہے

جیسا کہ بتایا جارہا ہے کہ بھارت کی ھندو شدت پسند فسطائی قوتیں، بھارت میں منظم مسلم کش فساد یا جینوسائیڈ برپا کرنے کی جہان تدبیریں سازشیں کر رہی ہیں،بلکہ آج بھارت پر حکومت کررہی بی جے پی کی سریرست آرایس ایس کی دوسری ذیلی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے، بعض شدت پسند ھندو اکثریتی علاقوں کے تعلیم حاصل کررہے طلبہ و طالبات میں، مسلمانوں کے خلاف، وقت ضرورت درکار ڈنڈے چھری تلوار سے پرے،آتشی ہتھیاروں سے تربیت بھی دی جارہی ہے
ان تمام عوامل کے باوجود،کیا آج کے تمدنی ترقی پزیر، جانوروں تک کے حقوق کے لئے لڑتے عالمی اداروں کے پس منظر میں،انسانیت کے قتل عام کی سازشیں وقوع پذیر ہونا ممکن بھی ہیں؟ مسلم دشمن عالمی یہود و نصاری سازش کندگان کے مسلم دشمن رجحان نیز انکے سابقہ سو سالہ عالم پر حکمرانی دوران، مسلم امہ پر ظلم و بربریت ڈھاتے تناظر میں، بھارت میں مسلم کش فساد برپا کرنا جہاں ناممکن عمل نہیں لگتا، وہیں پر بھارت کی آبادی کے پانچویں حصہ، ہم 30 کروڑمسلمان اپنی آل اولاد کی پرورش و تربیت سے پرے، ذہنی طور، ایسے کسی مسلم کش فساد کے لئے، کس قدر ذہنی طور تیار ہیں یہ دیکھنا، سمجھنا اور تدبر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے؟ مسلم امہ ھند کو، خالق و مالک دوجہاں، قادر مطلق کے،اسکے اپنے، کل مخلوقات ارض و سماوات سمیت، انسانیت کی پرورش و فراہمی رزق، ذمہ داری سے پرے، ہم مسلم امہ ھند کا، اپنے دین خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کے، ہم تک پہنچائے دین اسلام کے اقدار و روایات و صحابہ رضوان اللہ اجمعین و سلف و صالحین کے عمل کر دکھائے، نساء پردے کے بشمول بہت سے اعمال حسنہ کے اقتدار و ایمان کو تاقیامت معاشرے میں زندہ و جاوید رکھنا ہی ہمارا فرض منصبی ہے۔ اس کے لئے ہماری جان بھی، ہمیں قربان کرنا پڑے تو، دنیوی ساٹھ ستر سالہ مختصر زندگی کے تقابل میں، ہزار لاکھ سال سے بھی زیادہ عالم برزخ و بعد محشر ابدی زندگانی کے سامنے، یہ دنیوی زندگی ھیج تر ہے۔ یہی و ایمانی جہادی جذبہ ہے جو ہمیں اپنوں سے دس گنا عددی دشمن پر بھی فوقیت دیتا ہے۔ ویسے بھی ہم بھارت کی آبادی کا پانچواں حصہ، اگر ایسے کسی متوقع مسلم کش فساد پس منظر میں، جذبہ ایمانی، اپنے قلب و ذہن میں جاگزین رکھتے ہیں تو، باوجود حکومتی مشینری کے،ہم یقینا کسی بھی حالت و حیثیت میں، کفار کی تعداد سامنے، ہمہ وقت سینہ سپرد ہوتے پائے جائیں گے۔ لیکن شرط اولی،جذبہ جہاد سے لبریز جذبہ ایمانی کے ہمارے ذہن و افکار میں موجزن لاوا ہے کہ وہ کس قدر تیزی سے ہم میں بھڑکتا ہے اور ہمیں کفریہ سازشی عوامل پر جیٹ دلاتا ہے۔ یہ اسلئے کہ دنیا اس بات کی شاھد ہے کہ عالم کی کمزور ترین،بے سرو سامان افغانیوں کو، اسی جذبہ جہاد و مالک دو جہاں پر آیمان کامل نے، عالم کی سب سے بڑی مشترکہ امریکہ و اس کے اشتراکی ممالک کی جدت پسند حربی قوتوں پر فتح دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اور یقینا یہی جذبہ ایمانی، ہمیں اپنی بے سروسامانی و دشمن اسلام کی تمام تر عسکری تیاریوں کے باوجود،باطل قوتوں پرفتح دلانے موجب بن سکتی ہے۔ صوم و صلاة، ذکر واذکار کے عادی، آج کے ہم مسلم امہ ھند میں، اسی ایمانی قوت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ علماء ھند اس سمت فکر کریں اور جہد تسلسل شروع کریں تو ہمیں کسی بھی متصور ناگہانی حادثہ و سازش سے فکر مند رہنے کی مطلقا” ضرورت نہیں ہے۔ انشاءاللہ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں