60

سیاسی ہلڑ بازی اور عوام میں نفرتیں

سیاسی ہلڑ بازی اور عوام میں نفرتیں

تحریر : سردار ابوبکر صدیق

اسلامی ریاست ہونے کے ناطے اس ملک میں اسلام کے سنہری اصولوں یعنی تحمل برداشت رواداری اور جمہوری روایات تہذیب شائستگی اور دلیل کو پروان چڑھایا جانا چاہیے تھا بدقسمتی سے پاکستان و آزادکشمیر میں نفرت کی آگ غیر معمولی رفتار سے بڑھتی جا رہی ہے  مذہبی حلقوں کی اقلیت میں فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت اور عدم برداشت کے جذبات تو پائے جاتے تھے اب اس کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے

سیاست جو عبادت و خدمت کا نام ہے اس میں بھی نفرت فساد لڑائی جھگڑت  کے افسوس ناک شواہد نظر آنے لگے ہیں انسانیت کی اس تقسیم کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے سیاسی نفرتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ان فرینڈ کرنا شروع کر دیا ہے ایک دوسروں کی پوسٹس پر ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے گندے غلیظ کمنٹس کا استعمال عام سی بات سمجھی جانے لگی ہے

ایک کالج کے طالبعلم نے بتایا ہے کہہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد سے نفرت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے طلباء نے ایک ہی کلاس میں الگ الگ بیٹھنا شروع کر دیا ہے  یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے یہ نام نہاد سیاسی لیڈر جنہوں نے رعایا کے حقوق ان کو دینے بارے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا  جب ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہیں اور گالم گلوچ سے بھی گریز نہیں کرتے تو اس کے اثرات ان کے پیروکاروں پر پڑتے ہیں

جس کی وجہ سے ہر گھر متاثر ہو رہا ہے قریبی رشتے داروں میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر دوریاں پیدا ہو رہی ہیں سیاسی کارکن غصے کی حالت میں اپنے ہوش و حواس ہی کھو بیٹھے ہیں اور اندھی تقلید میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے انسانیت تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی ہے

اب تو جنازے بھی سیاسی پارٹیوں کا پتہ کروانے کے بعد پڑھے جانے لگیں ہیں جیسا کے پہلے سے مذہبی فرقوں کا پتہ کیا جاتا ہے اور یہ سب ہو کن کے لئے رہا ہے جنہوں نے تقسیم ہندوستان سے آج تک یہاں وہ  نظام رائج ہی نہ ہونے دیا جس سے طبقاتی کشکمش کو ختم کیا جا سکتا ہے انہوں نے تو عوام کے ایک مخصوص طبقے کو ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کے منجدھاڑ میں پھنسا کر روٹی روزی کے لئے اس قدر جھنجوڑا ہے کے ان کے آنکھوں پر پٹی اب کھلنے کا نام ہی نہیں لاتی  اس نظام میں علاج معالجہ جرم بن گیا ہے

یہاں آپ اپنے زخموں اپنی بیماریوں میں تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر مر جائیں آپ کے پاس اتنے پیسے نہیں کے آپ اپنا بہتر علاج کروا سکیں  یہاں پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں یہاں تعلیم کاروبار کا اڈہ بن چکا ہے یہاں سفر کرنا کسی ازیت سے کم نہ ہے اس معاشرے کو ان  مٹھی بھر اشرافیہ ،  سیاست دانوں نے اس قدر اپنے قابو میں کر رکھا ہے کے یہاں سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے

جمہوریت کا ڈھونگ رچا کر  عوام کے حقوق اس قدر  سلب کر رکھیں ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے اربوں قرضوں کا بوج تلے اس ملک مین محکوم عوام ٹیکسوں کی مد میں ریاست کا نظام چلا رہی ہے اس نظام نے عوام کو آج تک دیا ہی کیا ہے لوگ سسک سسک کر اس نظام کے میں زندہ درگور لاشوں کی طرح چل رہے ہیں

  یہاں آج تک کوئی خیر کی خبر نہیں ملی یہاں کوئی اچھی خبر سنے عرصہ دراز ہو چکا ہے تو اس معاشرے میں کوئی خوشی نہیں رہی اس نظام نے اس معاشرے سے خوشیاں لوٹ لیں ہیں دوستوں سے دوستیاں چھین لیں ہیں جذبوں سے احساس مٹا دیئے ہیں اور اس معاشرے میں اس نظام میں اس معیشت میں اتنی بربادی اور اتنی زلت میں ان سے بغاوت کئے بغیر زندہ رہنا اس سے بڑی کوئی بے حسی نہیں ہو سکتی . سوچا اب بھی جا سکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں