سیاسی ہلڑ بازی اور عوام میں نفرتیں
اسلامی ریاست ہونے کے ناطے اس ملک میں اسلام کے سنہری اصولوں یعنی تحمل برداشت رواداری اور جمہوری روایات تہذیب شائستگی اور دلیل کو پروان چڑھایا جانا چاہیے تھا بدقسمتی سے پاکستان و آزادکشمیر میں نفرت کی آگ غیر معمولی رفتار سے بڑھتی جا رہی ہے مذہبی حلقوں کی اقلیت میں فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت اور عدم برداشت کے جذبات تو پائے جاتے تھے اب اس کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے
ایک کالج کے طالبعلم نے بتایا ہے کہہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد سے نفرت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے طلباء نے ایک ہی کلاس میں الگ الگ بیٹھنا شروع کر دیا ہے یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے یہ نام نہاد سیاسی لیڈر جنہوں نے رعایا کے حقوق ان کو دینے بارے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا جب ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہیں اور گالم گلوچ سے بھی گریز نہیں کرتے تو اس کے اثرات ان کے پیروکاروں پر پڑتے ہیں
اب تو جنازے بھی سیاسی پارٹیوں کا پتہ کروانے کے بعد پڑھے جانے لگیں ہیں جیسا کے پہلے سے مذہبی فرقوں کا پتہ کیا جاتا ہے اور یہ سب ہو کن کے لئے رہا ہے جنہوں نے تقسیم ہندوستان سے آج تک یہاں وہ نظام رائج ہی نہ ہونے دیا جس سے طبقاتی کشکمش کو ختم کیا جا سکتا ہے انہوں نے تو عوام کے ایک مخصوص طبقے کو ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کے منجدھاڑ میں پھنسا کر روٹی روزی کے لئے اس قدر جھنجوڑا ہے کے ان کے آنکھوں پر پٹی اب کھلنے کا نام ہی نہیں لاتی اس نظام میں علاج معالجہ جرم بن گیا ہے
جمہوریت کا ڈھونگ رچا کر عوام کے حقوق اس قدر سلب کر رکھیں ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے اربوں قرضوں کا بوج تلے اس ملک مین محکوم عوام ٹیکسوں کی مد میں ریاست کا نظام چلا رہی ہے اس نظام نے عوام کو آج تک دیا ہی کیا ہے لوگ سسک سسک کر اس نظام کے میں زندہ درگور لاشوں کی طرح چل رہے ہیں
یہاں آج تک کوئی خیر کی خبر نہیں ملی یہاں کوئی اچھی خبر سنے عرصہ دراز ہو چکا ہے تو اس معاشرے میں کوئی خوشی نہیں رہی اس نظام نے اس معاشرے سے خوشیاں لوٹ لیں ہیں دوستوں سے دوستیاں چھین لیں ہیں جذبوں سے احساس مٹا دیئے ہیں اور اس معاشرے میں اس نظام میں اس معیشت میں اتنی بربادی اور اتنی زلت میں ان سے بغاوت کئے بغیر زندہ رہنا اس سے بڑی کوئی بے حسی نہیں ہو سکتی . سوچا اب بھی جا سکتا ہے ۔