43

یہ کشکول کبھی ٹوٹے گا ؟

یہ کشکول کبھی ٹوٹے گا ؟

قرض ملک کی معیشت ہی نہیں،خود مختاری کو بھی متاثر کرتا ہے،اس کے باوجود ہر آنے والی حکومت قر ض نہ لینے کے دعوؤں کے ساتھ قرض لیتی نظر آتی ہے،اس کے نتیجے میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اتنابڑھتا چلا جا رہا ہے کہ حکومت کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کیا کرے اور عوام کو پتا ہی نہیں چل رہاکہ کہاں جائے،ہر دور اقتدار میں قرض کے مسائل اور ان کے حل کیلئے کمیٹیاںضرر بنائی جاتی رہی ہیں،

مگر ان کمیٹیوں کی گزارشات پر کسی نے عمل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے،اس میں سب سے پہلی گزارش تھی کہ اب دوبارہ کشکول نہ پھیلایا جائے، خاص طور پر قرض کے حصول کے سلسلے میں آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا جائے، ہرحکومت کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اب کشکول توڑ دیا گیا ہے،حکومت کسی عالمی ادارے سے قر ض نہیں لے گی، لیکن اس اعلان کے کچھ عرصے کے بعد ہی حکومت ایک بار نہیں یک بعد دیگر ے آئی ایم ایف سرکار کے دروازے پر کشکول لیے کھڑی نظر آتی ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ ہر حکومت کی مالیاتی پالیسی کا محور قرض کا حصول ہی رہا ہے ،تاہم اس پا لیسی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ قریب ساڑھے تین برس کے اقتدار کے بعد ایک حکومت گئی تو اس کی جگہ لینے والوں کو بھی اسی طرح کے شدید ما لیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا ،جیسا کہ جانے والوں کو مسنداقتدار سنبھالتے وقت کرنا پڑا تھا ،موجودہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ اقتدار میں نئے پلان کے ساتھ آئی ہے اور ملک وقوم کو درپیش بحرانوں سے باہر نکالے گی ،مگر حکومت اسی راستے پر چل رہی ہے کہ جس پر دیگر چلتے آئے ہیں ،یعنی نئے قرض اُٹھا کر اپنا وقت پاس کیا جائے اور کل کلاں جو ان کی جگہ آئے گا ،اس کیلئے بھی کشکول تھامنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہر دور اقتدار میں کشکول توڑنے کے دعوئے تو بہت کیے جاتے ہیں،مگر اس کشکول کے گھن چکر سے نکلنے کیلئے جس دور اندیشی ،خلوص و ہمت کی ضرورت ہے ،وہ کہیں نطر نہین ااتی ہے ،ہر آنے والا حکمران اپنے پیشرو کی پا لیسیوں اور کار کردگی میں کیڑے نکالتا ہے ،

مگر اپنی پا لیسی اور کا رکردگی میں کوئی تبدیلی نہیں لا تا ہے ،اس لیے ہی ہر آنے والا ،جانے والے کا متبع ہی نظر آتا ہے ،اکثر پہلے والوں کو بھی پیچھے جھوڑ گئے ہیں ،مو جودہ حکومت بھی اسی سمت بڑھتی نظر آتی ہے ،اس کی قرض لینے کی دلچسپی سے لگ رہا ہے کہ یہ پچھلے تین برس کا ریکارڈ ایک ہی برس میں توڑدیئے گی ،قرض سے معیشت کو وقتی طور پر فائدہ تو ہو سکتا ہے ،مگر یہ معیشت چلانے کا ہر گز کا میاب ماڈل نہیں ہے ،ملک کو معاشی طور پر پائیدار اور مستحکم بنانے کیلئے خود انحصاری کی سوچ اپنانا ہو گی ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام ملکی قرض کے ساتھ حکمرانوںکی نا اہلیوں کا بوجھ بھی اکیلئے ہی بر داشت کررہے ہیں ،اس کے باوجودحکمرانوں کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ،حکمران قرض پر قرض تولے رہے ہیں ،مگر ان کے پاس کوئی منافع بخش استعمال کا پلان نہیں ہے ،ہمارے ہاں عرصہ دراز سے قرض کا غیر پیداواری استعمال ہو رہا ہے اور غیر پیداواری اخراجات کا حجم وسائل پر شدید ضرب لگاتا ہے ،

اس کے باوجودہماری حکومتیں کسی دیر پا منصوبہ بندی کے بغیر قرض لیتی اور بے مقصد منصوبوں میںجھونکتی چلی جارہی ہیں ، اگر قرض سے نجات حاصل کرنی ہے تواس روش کو تبدیل کرنا پڑے گا ، یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ جو قرض لیاہے ،اسے واپس بھی کرنا ہے ،ہمارے دوست ممالک کب تک ہمارے مالی مطالبات پورے کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مالی مطالبات بلا مشروط نہیں ہوتے ہیں ،

ہر قرض کی ایک قیمت ہوتی ہے اورہمارے قرض میں اضافے کے باعث یہ قیمت نہ صرف بڑھتی چلی جارہی ہے ،بلکہ اس کا سارا بوجھ عوام کو ہی اُٹھانا پڑرہا ہے ۔یہ عوام کی بد نصیبی رہی ہے کہ ہر دور اقتدار میں قرض میں کمی لانے کی بجائے اضافہ ہی کیا جاتا رہا ہے ،عوام پرقرض
کا جتنا بوجھ کل ڈالا گیا ،اس سے زیادہ آج ڈالا جارہا ہے ،سابقہ حکومت کے جس طرح سارے وعدے جھوٹھے ثابت ہوئے ہیں ،اس طرح موجودہ حکومت کے بھی سارے دعوئے جھوٹے ثابت ہورہے ہیں،

اس خرابی کی تشخیص میں یہ امر شامل ہے کہ بگاڑ کے ذمہ داروں کے کردار کو سامنے لاکر ان سے قرضوں کے استعمال سے متعلق سوال کیا جائے اور آئندہ کے لیے ایسے ضابطے ترتیب دیئے جائیں کہ جو قرضوں کو انتخابی اور سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرنے سے روکیں اور صرف ان منصوبوں پر خرچ کرنے کی اجازت دی جائے کہ جو دولت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،حکومت عوام پر بوجھ در بوجھ ڈالنے کی بجائے اپنا طرز عمل درست کرے ،اپنے اخراجات میں کمی لائے اور حکمران اپنے کپڑے فروخت کرنے کے دعوئے کرنے کی بجائے اپنے آثاثہ جات فروخت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں،

ہمیں اپنے معاشی استحکام کیلئے خود انحصاری کی راہ پر چلنا ہو گا،ایک عرصے سے ہاتھوں میں تھاما کشکول توڑ نا ہو گا،یہ کشکول جب تک نہیں ٹوٹے گا،اس وقت تک ملکی معیشت کے استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا، موجودہ ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سابقہ حکومت پر الزام تراشی کی بجائے اپنے دعوئے کے مطابق معاشی میدان میں تبدیلی لا کر دکھائے اور قرض کا حجم کم سے کم کرنے کی کوشش کرے،جو کہ ہاتھ میں تھامے کشکول توڑے بغیر ممکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں