36

قومی یکجہتی میں ہی سلامتی

 قومی یکجہتی میں ہی سلامتی

ہمارے ہاں یہ بات زبان زد عام ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور حکمرانی کا حق صرف عوام ہی کو حاصل ہے،لیکن عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہے ،یہ محض ایک دلفریب نعر ا ہے جو عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے لگایا جاتا ہے ،اگر واقعی ایسا ہو تا تو عوام سے مینڈیٹ لینے کے باوجود کوئی حکومت اور کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری کیے بغیر نہیں جاسکتا تھا ،اس ملک میںنادیدہ قوتیں جب چاہتی ہیں

کسی نہ کسی بہانے اپنی ہی لائی ہوئی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیتی ہیں اور عوام منہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں، کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟اگر یہ جمہوریت نہیں ہے تو پھر کون سی جمہوریت کی تمنا کی جائے،پرامن انتقال اقتدار کا کون سا طریقہ وضع کیا جائے،اس ملک میں کوئی بھی نظام وضع کرلیا جائے، سیاست میں مقتدر طبقات کی مداخلت روکی جاسکتی ہے نہ کوئی حکومت اورسیاسی قیادت مقتدرہ کی سر پرستی کے بغیر چل سکتے ہیں۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کی سوچ ایسی ہو چکی ہے کہ وہ اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے نہ سرف استعمال کرنا چاہتے ہیں ،بلکہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے لے کر مخالفین کومیدان سے آئوٹ بھی کرنا چاہتے ہیں،تاہم ادارے بار ہا واضح کر چکے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات میں مکمل غیر جانبدار ہیں ،سیاست میں ان کا کوئی لینا دینا ہے نہ سیاست میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں ،

انہیں سیاست میں خواہ مخواہ نہ گھسیٹا جائے ،لیکن سیاستدان اپنے معاملات پارلیمنٹ میں حل کرنے کی بجائے اپنی عادت سے مجبور بار بار اداروں کو مداخلت کی دعوت دینے سے باز نہیں آرہے ہیں ،ہمارے سیاست دان اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ایک طرف اپنے مفاد میں اداروں کی مداخلت چاہتے ہیں تو دوسری جانب ملک میں خونریزی کرانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے ، ایک کے بعد دوسرے لانگ مارچ کی تیاری ہورہی ہے ،اس حوالے سے سابق وزیر اعظم اور ان کے وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے احتجاج کے حق کو تحفظ نہ دیا گیا تواس بار ہم زیادہ تیاری سے آئیں گے،جبکہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت سوچ سمجھ کر لانگ مارچ کی دوبارہ کال دے ،

اس بار انہیں اسلام آباد کے اندر آنے نہیں دیا جائے گا،حکومت نے پہلے بھی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کو روکا تھا ،اس بار پہلے سے زیادہ سختی کے ساتھ روکنا چاہتی ہے ،لیکن اس سے ایک طرف جہاں صوبائیت کا زہر مزید پھلے گا ،وہیںدوسری جانب ملک میں انتشار و افتراق کو مزید ہوا ملنے کا اندیشہ ہے ۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے خاتمے پر احتجاج ان کا حق ہے اور احتجاج کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے، لیکن اختلاف و احتجاج اور اسے روکنے کا بھی کوئی مناسب طریقہ ہونا چاہئے ،اپنی ہی ریاست ،اداروں اور شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کسی طور پر جائز ہے نہ حکومت کو احتجاج روکنے کے نام پر عوام پرظلم و زیادتی کی اجازت دی جاسکتی ہے ،اس سے قبل بڑے بڑے لانگ مارچ و احتجاج ہوتے رہے ہیں

اور آئندہ بھی کسی پر امن احتجاج کو روکا نہیں جاسکے گا،لیکن احتجاج کی آڑ میں انتشار پھلانا اور اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا ملک کو تباہی کے گھڑے میںدھکیلنے کے مترادف ہے ۔پاکستانی قوم ایک عرصہ دراز سے سیاست میں اپنے مفادات کا کھیل دیکھ رہے ہیں ،ہر دور اقتدار میں اداروں کو سیاست میں گھسیٹا جاتا رہا ہے اورادارے بھی باوقت ضرورت سیاسی قیادت کا استعما کرتے رہے ہیں، اس کے باوجودکل حکومتی اتحادی جماعتیں اداروں کو گریدتی رہی ہیں تو آج اپوزیشن قیادت بھی اداروںکے خلاف ہرزہ سرائی کر تی نظر آتی ہے،

اگر حکومت میں ہمت ہے تو عدالت میں جاکراس پر فیصلہ لینا چاہئے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو آج حکومت میں ہیں، کل انہیں بھی داروں سے ناراض ہو کر ان کے خلاف آواز اٹھا نا ہے، اس لیے ایسا کوئی فیصلہ عدالت سے نہیں لیں گے کہ کل کلاں ان کے لیے روکاوٹ کا باعث بن جائے، پی ٹی آئی جو کام آج کر رہی ہے،

وہی کام مسلم لیگ( ن) پی پی پی، متحدہ اور اے این پی کر چکے ہیںاور آئندہ بھی اپنے مفاد میں جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ اس ملک کے عوام کی بد قسمتی ہے کہ یہاں ہر کوئی جمہوریت اور اداروں کی تقریم کا دعوئیدار ہے ، لیکن اس ملک میں جمہوریت چلنے دی جارہی ہے نہ اداروں کی عزت واحترام کا خیال کیا جارہا ہے، حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سال ہا سال اسے نظرانداز کرکے مسلسل گڑھے میں گرتے رہے ہیں،

لیکن کوئی سبق نہیں سیکھ رہے ہیں،سیاسی قیادت کو اداروں پر تنقید بند کرکے اپنے مسائل پارلیمان میں حل کرنے کی جانب بڑھنا چاہئے ،یہ وقت محاز آرائی کا نہیں ،باہمی مشاورت سے فوری عام انتخابات کے انعقاد کاہے ،حکومت کو ذاتی مفادات اور اپنی اَنا کے دئرے سے باہر نکل کر قومی مفاد میں فیصلے کرنا ہو ںگے ، پاکستان مزید کسی تقسیم اورکسی دوسرے حل کا متحمل نہیں ہو سکتا ،اس لیے حکومت کو چاہئے

کہ ریاستی طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قومی یکجہتی کو یقینی فروغ دے ،کیو نکہ یہ کسی ایک لیڈر ،سیاسی جماعت یا صوبے کا معاملہ نہیں، بلکہ قومی سلامتی و ملکی استحکام اور عوامی فلاح کا معاملہ ہے اور اسے اسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی اشدضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں