38

اداروں پر بیان بازی سیاست نہیں !

اداروں پر بیان بازی سیاست نہیں !

ہمارے ہاں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہسیاست میں سب کچھ جائز ہے ،سیاسی قیادت اظہارئے رائے کی آزادی کے نام پر سب کچھ کہہ سکتی اور کر سکتی ہے ،سیاست میں برادری ازم ،لسانیت اور مذہبی کارڈ کا استعمال تو پہلے ہی کیا جارہا تھا ،لیکن اب کھلم کھلا قومی اداروں کو بھی گھسیٹا جا رہا ہے ،جو کہ ملک وقوم کیلئے انتہائی خطرناک ہے ،سیاست میں پہلے صرف مداخلت کے الزام لگتے تھے ،

لیکن اب ہر بات میں قومی اداروں کو ملوث کیا جارہا ہے ،اس سے ایک طرف اداروں کی ساکھ خواہ مخواہ خراب ہورہی ہے تو دوسری جانب سیاست میں اپنی حدود پار کرنے کی ایک ایسی روایت ڈالی جارہی ہے کہ جس کا انجام کا فی بھیانک ہو سکتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے ادارے بار ہا واضح کر چکے ہیں

کہ ملک کے سیاسی معاملات میںمکمل غیر جانب دار ہیں ،سیاست سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ، انہیں خواہ مخواہ سیاست میں کھسیٹاجائے نہ بے جا الزام تراشی کی جائے ،لیکن سیاسی قیادت کی سوچ ہی ایسی ہو چکی ہے کہ ہزار بار انکار اور سمجھانے کے باوجود باز نہیں آرہے ہیں ، وہ ایک طرف اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب اپنی مرضی و مفاد کے عین مطابق فیصلے لے کر اپنے مخالفین کو سیاسی میدان سے آئوٹ کرنا چاہتے ہیں ،یہ سب کچھ انتہائی تشویش ناک ہے

،اس کا سد باب تبھی ممکن ہے کہ جب ادارے سخت نوٹس لیتے ہو ئے انگلی اُٹھانے والوں کے خلاف بلا امتیاز کروائی یقینی بنائیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ سیاسی قیادت کو اداروں نے بذات خود ہی حوصلہ دیا ہے کہ الزام تراشیاں کرتے آرہے ہیں،یہ سیاسی قیادت کا شروع سے وطیرہ ہے کہ اقتدار میں اداروں کی تعریف اور اقتدار سے نکلنے کے بعد الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں ،اس ملک کی سیاسی قیادت میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے

کہ جس نے حصول اقتدار کیلئے خوشامد اور اقتدار سے فارغ ہو نے پر بد زبانی نہیں کی ہے ،اس حمام میں سب ہی نگے ہیں ،مگر اداروں کے ساتھ ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے سے بھی باز نہیں آتے ہیں ،پی ڈی ایم کی ساری قیادت متعدد بار اداروں کے سر براہان کے نام لے کر بد زبانی کر چکے ہیں ،مگر خود اقتدار میں آئے ہیں تو اپنے مخالفین کی تنقید پر غداری کے مقدمات قائم کررہے ہیں ۔
ہماری سیاسی قیادت نے اپنے ماضی سے نہ سکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،انہوں نے پہلے بھی ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کیے

اور اب بھی ایک دوسرے کے خلاف ناجائزسیاسی مقدمات بنارہے ہیں ،یہ پہلے بھی ایک دوسرے کو دیوار کے ساتھ لگاتے رہے اور اب بھی اپنے مخالف کو دیوار سے لگانے سے باز نہیں آرہے ہیں ،اس کانتیجہ کل بھی اچھا نہیں نکلا اور آج بھی برُا ہی نکلے گا ،لیکن سیاسی قیادت انتقامی سیاست سے باز آنے کیلئے تیار نہیں ہے ،حالا نکہ اقتدار آنے جانے والی چیز ہے ،اقتدار ایک بار چلا گیا تو دوبارہ بھی مل جائے گا،تاہم اقتدار جانے کے بعد اداروں کو گریدنا اور اقتدار ملنے پر انتقامی سیاست کرنا درست عمل نہیں ہے۔
ہ امر بھی قابل غور ہے کہ سیاسی قیادت اقتدار سے باہر نکل کر ہی اداروں پر تنقید کرنے لگتے ہیں تو ان کے پاس کوئی نہ کوئی جواز ضرور ہو گا، تاہم اس سارے کھیل میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی قیادت کا تو کچھ نہیں جاتا، البتہ جذباتی سیاسی کارکنان رگڑے میں آ جاتے ہیں، اس بار بھی سیاسی کارکنان کے خلاف ہی کریک ڈائون کیا جا رہا ہے، جبکہ بیان بازی کرنے والے کچھ بیرون ملک بیٹھے ہیں

تو کچھ یہاں بھی آزادانہ ہی گھوم رہے ہیں، ریاستی ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون کس کے خلاف مہم جوئی کر رہا ہے اور اسے کس کی سپورٹ حاصل ہے، اس کے باوجود انہیں سختی سے روکنے کی بجائے بار بار صرف برہمی کا اظہار ہی کیا جا رہا ہے، اداروں کو سیاست میں کوئی گھسیٹ سکتا ہے

نہ ان کے خلاف بیان بازی کر سکتا ہے، ادارے اپنی مرضی سے سیاست میں آتے ہیں اور اپنی مرضی سے ہی نیوٹرل ہونے کا تاثر دینے لگتےہیں، لیکن ملکی سیاست اور قیادت دونوں کو ہی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دیتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اداروں کا ملکی سیاست میں کردار رہا اور آئندہ بھی مثبت کردار رہے گا ،تاہم اگر سیاسی قیادت ایسے ہی اداروں کو اپنی بیان بازی سے بدنام اور اپنے عمل سے پاریلمان کو بے توقیر کرتے رہے تو پھر انہیں سنجیدگی سے کون لے گا؟میاں نواز شریف ہوں یا مریم نواز ،مولا نا فضل الرحمن ہوں یا آصف علی زر داری سب ہی مقتدرہ کے سیاسی رول کے ناقد رہے ہیں اور ان کا مطالبہ رہا ہے

کہ اداروں کو سیاست کاحصہ نہیں بننا چاہئے ،لیکن اب ادارے نیو ٹرل ہوئے ہیں تو انہیں نیو ٹرل بھی رہنے نہیں دیا جارہا ہے ،حکومتی اتحاد اپنا اقتدار قائم رکھنے کیلئے اداروں کی سرپر ستی چاہتے ہیں تو اپوزیشن کو حکومت گرانے کیلئے مدد در کار ہے ،سیاسی قیادت کو کون سمجھائے کہ دونوں ہی غیر آئینی مطالبہ کررہے ہیں اور یہ مطالبہ ہی ان کے گلے پڑسکتا ہے، سیاسی قیادت کی اداروں پر بیان بازی کوئی سیاست نہیں،بلکہ سازش ہے اور اس سازش کا سیاسی قیادت کو حصہ نہیں بننا چاہئے ، اس میں ہی سیاست اور جمہوریت کی بقاء ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں