40

غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا!

غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا!

اتحادی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی دو ماہ مکمل نہیں ہوئے، لیکن اسے اتنے سنگین قسم کے مسائل کا سامناہے کہ جن کا حل بس سے باہر دکھائی دیتا ہے،ایک طرف سیاسی و معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے تو دوسری جانب بجلی کے بحران پر قابو پانا مشکل دکھائی دیتاہے ، حکومت ایک طرف بجلی کے نرخ بڑھائے جارہی ہے تو دوسری جانب بجلی کی بدترین غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کاسلسلہ ختم نہیں ہورہاہے ،

ملک کے مختلف علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 8 سے 12گھنٹے تک پہنچ چکا ہے،یہ صورتحال عوام کے لیے شدید پریشانی اور مسائل کا باعث بن رہی ہے،عوام اپنے غم و غصے کا اظہار جہاں احتجاج کر کے کررہے ہیں،وہیںآزمائے کو ایک بار پھر آزماتے ہوئے کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ خود پرغضب کیا تیرے وعدئوںپہ اعتبار کیا ہے۔
اس بات کا حکومت کو بخوبی ادراک ہے ،اس لیے ہی وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بجلی محکموں کے افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ لوڈشیڈنگ میں کمی کرکے عوام کو مشکلات سے نکالا جائے،وزیراعظم کا حکم اپنی جگہ، لیکن صورت حال یہ ہے کہ سرکار کی اپنی رپورٹس کے مطابق بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بڑھ گیا ہے تو لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوگا،

وزیراعظم کو خود ہی سوچنا چاہیے کہ 6 ہزار میگاواٹ شارٹ فال کی موجودگی میں نااہل واپڈا اور بجلی فراہمی کے دیگر اداروں سے کیسے توقع رکھتے ہیں کہ وہ حکم دیں گے اور اگلے ہی دن سے لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی، اگر پاور ڈویڑن خود بتارہا ہے کہ طلب و رسد میں 6 ہزار میگاواٹ کا فرق ہے تو لوڈشیڈنگ تو نہ صرف جاری رہے گی ،بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو گا،تاہم مسلم لیگ( ن)کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ساڑھے 3 گھنٹے تک محدود کردی جائے گی۔
عوام اچھی طرح جا نتے ہیں کہ ملک میں بجلی بنے گی نہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو گا ،تاہم وزیراعظم نے ایک جملہ بڑا دلچسپ کہاہے کہ عوام کو مشکل سے نکالیں جائے، اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، وزیراعظم صاحب سمجھوتا تو آپ آتے ہی کرچکے ہیں،آئی ایم ایف سے قرضوں کے چکر میں قوم کو گروی رکھ دیا گیاہے،

سابقہ حکومت نے اقتدار کی خاطر سمجھوتا کیا اور مو جودہ حکومت نے بھی اقتدار میں رہنے کیلئے نہ صرف سمجھوتہ کررہی ہے ، بلکہ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کی شرئط پر عمل در آمد کا عندیہ دیتے ہوئے قہقے لگا کر عوام کا مذاق بھی اُڑا رہے ہیں، لیکن جانتے نہیں ہیں کہ حکومتی اتحاد میں شامل قیادت نے بڑی ہو شیاری سے سارا ملبہ شہباز شریف پر گرانے کی حکمت عملی پر خوبصورتی سے عمل کیا ہے، الیکشن فوراً ہوں یا ڈیڑھ سال بعدحکومت کا سارا ملبہ مسلم لیگ( ن) پر ہی گرے گا اور دیگر سیاسی جماعتیںاپنا دامن بچاتے ہوئے

انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی ۔موجودہ حکومت اپنی فیصلہ سازی میں اتحادیوں کونہ صرف شامل کررہی ہے ،بلکہ گا ہے بگاہے ظاہر بھی کرتی رہتی ہے کہ اتحادی فیصلہ سازی میں برابر کے شریک کار ہیں،تاہم اتحادیوں کے قول وفعل کا تزادکسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے ،میاں شہباز شریف کا زیادہ وقت اتحادیوں کو منانے اورکچھ وقت بحرانوں کے حل کے تلاش میں صرف ہو تا ہے ،

وزیراعظم نے سیاسی و معاشی بحرانوں کا حل تلاش کر نے کے ساتھ اپنے وعدے کے مطابق لوڈشیڈنگ کاخاتمہ بھی کرنا ہے، لیکن یہ جن پلانٹس کے نہ چلنے کا ذکر حکومت میں آنے سے قبل کیا کرتے تھے ،انہیں کب چلائیں گے، یہ بات سابقہ حکومت سمجھ سکی نہ مو جودہ حکومت سمجھنے کی کوشش کررہی ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر بڑی آسانی سے ہر قسم کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ ہی بدل جاتاہے ۔
اس اعتبار سے سابقہ حکومت قابل گرفت نہیں ،وہ پہلی بار حکومت میں آئے تھے ، لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تو بار بار حکمرانی کے مزے لے چکے ہیں اور یہ آئی ایم ایف سے کوئی پہلا سمجھوتا نہیں کرر ہے ہیں،انہوں نے اپنے ادوار میں ایسے بار ہا عوام کی قیمت پر سمجھوتے کیے ہیں،اس لیے سابقہ حکومت پر ملبہ ڈال کر جان چھڑا سکتے ہیں نہ ہی اقتدار چھوڑ کر دامن بچا سکتے ہیں ،

انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے پھٹا پرانا ڈھول گلے میںڈالا ہے تو اسے کسی حدتک
درست کرتے ہو ئے بجانا توپڑے گا ، یہ آئی ایم ایف میں خوشی سے گئے نہ سابقہ حکومت خوشی سے گئی تھی ،یہ ایک ایسا تسلسل ہے کہ جس میںحکمران اپنی باری پر آتے ہیں اور وہی کردار ادا کرتے ہیں کہ جو پچھلے حکمران کرتے آرہے ہیں،اس میں کسی نے تبدیلی کرنے کی کوشش کی ہے نہ خود انحصاری کا کوئی راستہ تلاش کیا ہے ،اُلٹا ایک ایٹمی طاقت کو خوفزدہ ریاست بنا کررکھ دیاگیاہے۔
موجودہ صورت حال بتاتی ہے کہ اتحادی حکومت کے لیے حالات بالکل بھی آسان نہیں ،اب تو عوام کے ساتھ انہیں لانے والے بھی پچھتائوئے کے ساتھ کہنے لگے ہیں کہ غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا ،اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ ایک گھمبیرمشکل صورتحال کا کامیابی سے کیسے مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے مختصر دور اقتدار میں ایسی کونسی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں

کہ جن سے ایک طرف ملک کو درپیش بحرانوں کا خاتمہ اور دوسر ی جانب عوام کے ساتھ اپنے لانے والوں کو بھی اطمینان دلایا جاسکے،لیکن اس کیلئے حکومت اعلانات کے ساتھ جو اقدامات کررہی ہے، وہ تب تک بار آور ثابت نہیں ہوسکتے کہ جب تک مختلف شعبوں کو سہارا دینے والے ادارے مستحکم بنیادوں پر کھڑے نہیں ہوں گے،،موجودہ اتحادی حکومت میں شامل تمام لوگ اس سے پہلے بھی مختلف اوقات میں حکومت کا حصہ رہے ہیں، لہٰذا اداروں کی اہمیت کے ساتھ در پیش مسائل سے بہت اچھی طرح واقف ہیں

اور انھیں پتا ہے کہ صرف اعلانات سے کام نہیں چلے گا،اس کے ساتھ موثر عملی اقدامات بھی ضروری ہیں، انھیں چاہیے کہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ایسے اقدامات کریں کہ جس کے ذریعے مسائل کے تدارک کے ساتھ عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بحال ہو جائے، بصورت دیگر آئندہ انتخابات میں عوام سے مینڈیٹ حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں