51

قرآن! کائنات کی سیر

قرآن! کائنات کی سیر

رنگِ نوا
کالم نگار: نوید ملک
۔
”سیر ”کے حقیقی لطف کا نزول اسی کے دل پر ہوتا ہیجس کے ذہن میں تجسس اور آنکھوں میں تحیر ہو۔جس انسان کے اندر مجذوب بچہ ہوتا ہے اسے ہر چیز پرکھنے کا جنون ہوتا ہے۔مجذوب ہر منظر میں خود کو جذب کرتا ہے اور اسی طرح حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح اندھیرے میں کسی چیز کو تلاش کرنے کے لیے ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں،زخم لگتے ہیں، مگر اضطراب محسوس نہیں ہوتا۔

تجسس اور تحیر کی دولت سے جو شخص مالا مال ہوتا ہے گھر سے گھر تک اور صبح سے شام تک کے سفر میں اُس کی ذات پر کئی کہانیاں کھُلتی ہیں۔میں اور دیگر منتظمین ایک کمرے میں کھڑے تھے اور کائنات کی سیر کرنے کیلیے والدین، اساتذہ، طلبائ، ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ اقتصاد، علماء وغیرہ کی آمدو رفت جاری تھی۔
ایک صاحب نمائش کا جائزہ لیتے ہوئے میرے قریب آئے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولے:” میں نے اس سے پہلے بھی قرآن ِعظیم کے حوالے سے کچھ نمائشیں دیکھ رکھی ہیں،مگر یہ نمائش بہت منفرد ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم کی آیات ہمارے سینوں میں روشن ہوں اور پھر ہمارے عمل و کردار سے سارا معاشرہ منور ہو۔”
یہ کہتے ہوئے ان صاحب نے نمائش کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی او ر اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔ان کے جانے کے بعد میرے ہونٹوں پر حکیم الامت، علامہ اقبالؒ کا ایک شعر جھلملانے لگا:
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قُرآن!
موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ ہم میں قرآن نظر آئے۔اس مقصد کیحصول کے لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی تربیتی مراحل سے گزاریں۔حکیم الامتؒ، اپنی شہرہ آفاق طویل نظم”شکوہ” میں فرماتے ہیں:
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
الاعراف، آیت 174 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اور اسی طرح ہم کھول کر(تفصیل سے) آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ لوٹ آئیں۔”
نسلِ نو کو اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لانے کے لیے قرآن ِ کریم کو ماضی کی طرح سینوں سے لگانے کی ضرورت ہے۔ اپنے ہونٹوں پر تلاوت ثبت کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اُن پیغامات کو بھی سمجھیں، جن پر عمل کر کے دنیوی و اخروی زندگیوں میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
جدید سائنسی و سماجی علوم کے ساتھ احیائیاقدارِ اسو? حسنہ کے لیے کوشاں تربیتی ادارے ”ایمبلم ہائیر سیکنڈری اسکول” ،روح فورم اور مصطفیٰ ایجوکیشن سوسائٹی کے زیرِ اہتمام” قرآن کتابِ زندگی” تربیتی پروگرام کا آغاز کیا گیا جو نو دنوں تک جاری رہا۔تربیتی پروگرام کا مقصد اساتذہ کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ سمعی و بصری اعانت اور دلچسپ سرگرمیوں کے ذریعے بچوں کے لیے قرآنِ پاک کی آسان تفہیم پیش کر سکیں؛

تاکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں قرآنی تعلیمات کو عمل میں لا سکیں۔سرگرمیوں کے دوران فہمِ قرآن کے حوالے سے جتنی تخلیقات اور فن پارے سامنے آئے، انھیں نمائش کے لیے رکھا گیا اور ”قرآن! کائنات کی سیر” کے نام سے نمائش کا دعوت نامہ ہر خاص و عام کو بھیجا گیا جس میں تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔یہ نمائش ایک ہفتہ تک جاری رہی اور شرکاء نے اس سعی کو بہت سراہا۔
یہ بہت اعلیٰ اور منفرد نمائش تھی جس میں نہ صرف بچوں کی تفریح کے لیے کھیل کود، مصوری، کیلیگرافی، پزل گیمز، تخلیقی و جسمانی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا بلکہ ان کی مدد سے قرآن پاک کی محبت دلوں میں روشن کرنے کی کوشش کی گئی۔سب سے بڑا تخلیق کار ربِ کائنات ہے اور اُس کی عظیم کتاب، جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔بحیثیت مربیان، ہماری کوشش ہونی چاہیے

کہ ہم اس سمندر سے گوہر تلاش کر کے نسلِ نو تک پہنچائیں۔خالقِ دوجہاں نے کائنات کو ہر قسم کی خوبصورتی سے نوازا، مختلف موسموں سے آراستہ کیا۔ پہاڑ، میدان، دریا، صحرا بنائے تاکہ دیکھنے والی آنکھیں اور دھڑکنے والے دل کبھی اکتاہٹ محسوس نہ کریں۔نمائش میں بھی مختلف آیات کی روشنی میں ایسے فن پاریتیار کیے گئے جنھیں دیکھ کر ان کے مفاہیم آسانی سے سمجھے جا سکتے تھے۔نسلِ نو کو قرآنِ حکیم کے ساتھ جوڑنے کے لیے جدید تدریسی حکمت عملیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر (احیائے اقدارِ اسو? حسنہ(روح) فورم اور ایمبلم جہدِ مسلسل کر رہا ہے۔
نمائش، نمائش بالکل نہیں لگ رہی تھی بلکہ یوں لگ رہا تھا جیسے کائنات کے اسرار سب پر منکشف ہو رہے ہیں۔ رنگین تصاویر، چارٹس اور ماڈلز کے ساتھ جذبات پرواز کر رہے تھے۔طرزِ فکر میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ اساتذہ کی پیشانیوں سے شادابی ٹپک رہی تھی اور سارا ماحول سبز ہو رہا تھا۔بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے۔گرمی کی شدت کے باجود رگوں میں اطمینان کی ٹھنڈک دوڑ رہی تھی اورشرکاء علامہ اقبالؒ کے شعر کی تفسیر دیکھنے کے ساتھ ساتھ سمجھ بھی رہے تھے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
یہ شعر نسلِ نو کی کردار سازی کے لیے نصاب کی بنیاد ہے ۔اس غوطہ زنی کے لیے تربیت کے ساتھ ساتھ ساز و سامان کی بھی ضرورت ہے۔اس نمائش کے ذریعے ایسی ہی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں