43

کیا ہمارے سیاست دان آئین شکن نہیں؟

کیا ہمارے سیاست دان آئین شکن نہیں؟

عمران امین

 ہمارے ملک کی اشرافیہ کا کہنا ہے کہ میرا کھیل ہے اور میرے اُصول، میدان میرا ہے اور کھلاڑی بھی میرے۔تاش کے سب یکّے میرے ہیں،موسم کے سب رنگ میرے ہیں۔کھیلتے رہو،ناچتے رہو یا گاتے رہو، جیت تو میری پکی ہے کیونکہ اس ملک میں جہلاء کی ایک بڑی تعداد عرصہ دراز سے مقیم ہے۔اُن کو بہلانے اور سنانے کو ہر دم نیا ساز تیار ہے جبکہ جو لوگ پڑھتے اور لکھتے ہیں وہ بھی ہر دم میرا ہی دم بھرتے ہیں۔ہاں!نام نہاد ارسطو حضرات کوخوش کرنے کے لیے ایک تحریر بھی لکھوا رکھی ہے،

یہ تحریر یوں تو انسانی ہے مگرالہامی قرار دے رکھی ہے۔مقدس اور متبرک انسانی تحریر کی تشریح اور عمل کروانے کے لیے فوج ظفر موج بھی رکھی ہے۔آسمانی کتاب پر یقین ہو یا نہ ہو،مگر اس انسانی تحریر کی تکریم کہنے کوسب پر لازم ہے۔آسمانی کتاب جُوترمیم سے پاک،،جُو حرف آخر تک مستند۔انسانی کتاب جُو ترامیم سے بھری ہوئی اور بہتری کی گنجائش کے ساتھ مقدس ہرگز نہیں ہو سکتی۔ ہاں! قابل احترام ضرور ہوسکتی ہے۔میرے پڑھنے والے سمجھ گئے ہو ں گے کہ میں مملکت خداوند پاکستان کے آئین والی دستاویز کی بات کر رہا ہوں۔جس کی عزت و حرمت ہم سب پاکستانیوں پر فرض ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان میں ہرحکمران گروہ نے آئین کو اپنے مفادات کے تابع رکھا۔عوام کو روزگار مہیا کرنا، بہتر سہولیات زندگی فراہم کرنا،جان و مال کی حفاظت کرنا،امن کو فروغ دینا،مساوات قائم کرنا،عدل و انصاف کا بول بالا کرنا اور براہ راست عوام کو سہولت پہنچانے کے دیگر کام مملکت کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔کیا ہماری ماضی کی بد عنوان اور مافیا زدہ حکومتیں یہ سب سہولیات عوام کو فراہم کرنے میں کامیاب ہوئیں؟۔کیا موجودہ حکومت بھی یہ ذمہ داری پوری کررہی ہے؟۔ 
افسوس ناک امر یہ ہے

کہ مقدس آئین کے نافذا لعمل ہونے کے باوجود اس ملک میں عرصہ دراز سے انصاف کا ترازو سائیڈ پر جھکا ہوا ہے۔تھانے بکتے ہیں، افسربدمعاشیہ کے نخرے اُٹھا تے ہیں اور گواہوں کے مول لگتے ہیں۔ایسے نظام میں مظلوم کو صرف انصاف کا دلاسہ دیا جا سکتا ہے،انصاف نہیں مل سکتا۔ رہی سہی کسر ہمارے فرسودہ عدالتی نظام نے نکال دی ہے جہاں مقدمات کا فیصلہ سالوں گزرنے کے بعد بھی نہیں ہو پاتا۔ایسے معاشرے میں جینے کا حق زور آور کو ہوتا ہے اورکمزور صرف آہ وبکا کر سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے باسیوں کے لیے بنیادی انسانی ضروریات کا حصول ابھی تک ایک سہانا سبز خواب ہے

جو صرف انتخابات کے وقت عوام کو دکھایا جاتا ہے۔کسی بھی حکومت کا پہلا کام عوام الناس کے لیے اچھی صحت کا حصول ممکن بناناہوتاہے مگر یہاں ہسپتال زنا خانے اوررشوت کے کارخانے بن چکے ہیں مریض زیادہ اور بستر کم ہیں ہسپتالوں میں مفت دوائی تو درکنار،سستی دوائی بھی دستیاب نہیں۔ملکی اور غیر ملکی دواساز کمپنیاں من مرضی کے ریٹ فکس کررہی ہیں،اُن کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ڈاکٹرز قصاب بنے منتظر ہیں

اور عوام اپنی قربانی کے لیے بادل نخواستہ تیار بیٹھے ہیں۔اس ساری صورتحال کی وجہ سے ہمارے ملک میں بے روزگاروں کی ایک فوج تیار ہو چکی ہے۔یہ بے روزگاروں کی فوج اپنے مستقبل سے لا علم اور انجانے خوف کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے  جبکہ ہمارے سیاست دان نوجوان نسل کے ناپختہ ذہن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں جیسا کہ آج کل اقتدار کی ہوس کامارا ایک سیاست دان نئی نسل کو پاکستان کی بہادر اور جری فوج کے مقابلے میں لا نے کی ناپاک کوشش کررہا ہے مگرقوم اپنی افواج سے محبت کرتی ہے اور ان شائاللہ یہ لازوال محبت رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی۔
اب ہم آئین کی تھوڑی سی بات کرتے ہیں آئین کا ایک آرٹیکل  38 کہتا ہے ”اُن تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری،بیماری یا بے روزگاری کے سبب مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکیں،مملکت اُن کی دیکھ بھال کرنے کی پابند ہو گی“۔ آئین کا آرٹیکل 14اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ”فرد کے وقار اور گھر کی پرائیویسی کی ہر قیمت پر عزت کی جائے گی“۔ایک اور جگہ آئین کے آرٹیکل 10کے تحت گرفتاریا حراست میں لیے گئے فرد کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

ان چند آرٹیکلز کے علاوہ بے شمار ایسے آرٹیکلز ہیں جو عام شہری کے حقوق کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں ان سب آرٹیکلز کا حترام کیا جا رہا ہے؟۔ کیا فرد کے بنیادی انسانی حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں؟۔آئین میں لاتعداد ایسے آرٹیکلز موجود ہیں جن پر آج تک کوئی بھی حکومت عمل نہیں کر پائی اور یوں ہمارے تمام حکمران طبقے بظاہرآئین شکنی کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ملک کی اشرافیہ نے مقدس آئین کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے

اور رہی سہی کسر ہمارے جاہل عوام نے پوری کر دی ہے جو ”جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس“ کا اُصول جانتے اور مانتے ہیں۔یہ لوگ ابھی تک اپنے آباؤ اجداد کے رسموں رواجوں کو چھوڑنے کو تیار نہیں، بت پرستوں کی اُولادشخصیت پرستی کے مرض میں صدیوں سے مبتلا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے عوام کو کئی دہائیوں سے مسلسل بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور سیاست دانوں کی جانب سے  مسائل پر بات کرنے کی بجائے اپنے اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر بات کی جاتی ہے۔اب یاد رہے!PICK AND CHOOSEکا زمانہ گزر گیا۔

یا تو سارا آئین قابل احترام ہے،تھوڑا تھوڑا سا،اپنی مرضی کا، اب کسی بھی صورت قبول نہیں ہو گا۔لوگوں میں شعور آگیا ہے وہ جانتے ہیں کہ کون ان معصوم عوام کا سوچتا ہے،کون اقتدار کا بھوکا ہے اور کس کو اپنے کاروبار اور اولاد عزیز ہے۔ مقدس آئین کے ساتھ حکمران طبقے نے ماضی میں بہت بُرا سلوک کیا ہے

جس کی وجہ سے ہمارا مقدس آئین،اس وقت ایک ٹوٹے ہوئے شیشہ کی مانند ہے،اس ٹوٹے آئینہ میں ہمارا معاشرے کا خوفناک اوربھیانک اجتماعی چہرہ نظر آرہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ٹوٹے ہوئے شیشے کو جوڑ کر اپنا اجتماعی چہرہ خوبصورت بنا ئیں،تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس آئین کی حقیقی صورت اور عزت جان سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں