42

شاھین صفت بننا ہے تو شاعرِ مشرق کو پڑھ

شاھین صفت بننا ہے تو شاعرِ مشرق کو پڑھ

تحریر : محمد آصف سلطانی
اقبالؒ کا مقام و مرتبہ ایک اقبال شناس ہی کر سکتا ہے۔ میں علامہ قبال سے کس قدر عقیدت رکھتا ہوں اقبال شناسی کیسے ممکن ہے شاید اس کےلئے اقبالؒ کے اشعار میں ڈوب جانا ہوگا؟ میں اقبال ؒ شناس ہوں یا نہیں۔؟ میں علامہ سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔؟ میں علامہ اقبالؒ کو کس مقام و مرتبہ پر فائز دیکھتا ہوں.
عالم دین احمد علی قصوری کلام اقبال کے حوالے سے کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کا کلام محبت و عقیدت کا کلام بھی ہے لیکن یہ دراصل قرآن پاک کی تفسیر ہے۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب اور آخری نبیﷺ جو صدیوں زمانوں کےلئے رحمت بن کر آئے ان پر نازل ہوا۔ پھر اس الہامی کتاب کی تفسیر وہی بیان کرسکتا ہے جو محو ہوگیا ہے۔ جو ڈوب گیا جو ہر وقت درود پاک کا ورد کرے۔

جس کی ہر سانس سرکار دو عالم کی محبت سے لبریز ہو۔ آنکھیں بھیگ جائیں اسی وجد کی کیفیت میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی جاسکتی ہے سو بقول علامہ احمد علی قصوری علامہ اقبال کا کلام ہو بہو قرآن پاک کی تفسیر ہے۔ ہم اہلِ مشرق کو سوچنا چاہیے کہ اپنی صدی کے سب سے بڑے اور اہم شاعر اور مفکر کا مقام و مرتبہ کیا یہی تھا کہ ہم اس کے اشعار فریم کروا کر دیواروں پر آویزاں کر دیں اور اس کے کلام کے عملی پہلوؤں کو پسِ پشت ڈال دیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شاعر اور ادیب بھوک کی علامت ہیں

اور فکر و فاقہ کے حوالے سے ہم نے ان پر کئی لطائف بھی گھڑ رکھے ہیں جو نجی محفلوں میں ہنسنے ہنسانے کےلئے سنے اور سنائے جاتے ہیں جبکہ فنونِ لطیفہ کو ہم لطیفہ سنانے کا فن سمجھتے ہیں۔ دوسرا ہم اپنا ہر کام اللہ تعالیٰ اور حکومتِ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں اُدھر حکومتِ وقت بھی کیونکہ خطہء اقبال سے وابستہ ہوتی ہے

چنانچہ وہ اپنے کام رعایا پر چھوڑ دیتی ہے جبکہ ربِ کائنات اپنی ذات پر توکل سے پہلے اونٹ کی ٹانگوں میں رسی باندھنے کا درس دیتا ہے یعنی عملاً کچھ کرنے کا اشارہ ہے۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ اقبال کا سارا کلام عمل اور خود داری کا پیغام دیتا ہے۔ اقبال کا کلام فردِ واحد پر انحصار کرتا ہے اس کا مرد، مردِ آہن ہے۔

کون نہیں جانتا کہ اقبال فردِ واحد سے مخاطب ہو کر اجتماعیت کی طرف جاتا ہے۔ ہم نے ٹرکوں ,بسوں پر اقبال کے جتنے اشعار بھی لکھوا رکھے ہیں یا کلیاتِ اقبال ہی اٹھا کر دیکھ لیں اُن میں بیشتر میں اقبال فردِ واحد ہی سے مخاطب ہے ,صیغہ واحد ہی میں کلام کرتا ہے۔
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
تو شاہین ہے پرواز ہے کام ترا
کی محمد سے وفا تو نے ، وغیرہ وغیرہ
فردِ واحد جب اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے تب اجتماعیت کی بات ہوتی ہے لیکن کیا کیجیے ہم ایسے سہل پسند واقع ہوئے ہیں کہ عمل کی بات پر اللہ کی نہیں مانتے ,اقبال کی کیسے مانیں گے؟ مہذب معاشروں میں اقبال ایسے مفکروں کا مزار نہیں بنایا جاتا بلکہ ہمیشہ انہیں اپنی تہذیبی زندگی کے درمیان زندہ رکھا جاتا ہے۔

یہ وقت اقبال کو شاعری کے حوالے سے زندہ رکھنے یا اقبال کو ازسرِ نو دریافت کرنے سے زیادہ اقبال کے فکری پہلوؤں سے استفادہ کرنے کا ہے اس لئے کہ اقبال کے تمام فکری پہلوؤں کو اردو ,فارسی ,انگریزی ,جرمن اور کئی دیگر زبانوں کے مفکروں نے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے جو اقبال کو شاعر کی حیثیت سے یاد رکھنے کےلئے کافی ہے، ہمارا کام اقبال کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے

معاشرتی تعمیر کا ہے، کیونکہ اقبال مشرقی تہذیب کا تھنک ٹینک ہے ،وہ سائنس کا آئن سٹائن اور صورت گروں کا پکاسو ہے، وہ ایک ایسا عظیم مفکر تھا جن کی خدمات مستعار لینے کے لئے آج مغربی معاشرے ان جیسے عظیم دماغوں کو سرمائے کی غیر مشروط پیشکش کرتے ہیں۔ وہ سماجی راستے تعمیر کرنے پر مامور ہوتے ہیں قومیں ان راستوں پر چلتی ہیں اور فلاح پاتی ہیں۔ اقبال ہمیں مفت میں ملا ,ہم نے اُس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کیا۔ بیداری اور خود داری کا درس دینے والے اس عظیم مفکر کے

یومِ وفات یا ولادت کو ہی لے لیجیے ہم اس روز صبح دیر سے بیدار ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہماری چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ اقبال کہتا ہے نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر لیکن ہم قصر کی طرف بھاگتے ہیں آخر میں بس میں یہی کہوں گا کہ اے نوجوان اگر شاھین صفت بننا ہے تو شاعرِ مشرق کو پڑھ یہ بہت بڑا اور قیمتی سرمایہ ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں