33

ہریانہ کی ببیتا میم اور سنگھی بی جے پی آرایس ایس تعلیمی نظام

ہریانہ کی ببیتا میم اور سنگھی بی جے پی آرایس ایس تعلیمی نظام

نقاش نائطی
۔ +966562677707

“نقار خانہ میں طوطی کے چیخنے کی آواز کوئی بھی سن نہیں پاتا” یہی کچھ اپنے وقت کی سونے کی چڑیا بھارت کے، انگریزوں سے آزاد ہوئے 75 سال بعد، اپنےوقت کے انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے، جن سنگھ کی اولاد، آج کے، آر ایس ایس، بی جے پی ، مودی، یوگی جیسے ھندوؤں کے ویر سمراٹ دیش دشمن لیڈروں کے ہاتھوں “75 سالہ امرت مہتسو” مناتے پس منظر میں، کسی گاؤں کی لوٹ بعد جشن مناتے ڈاکوؤں جیسا عمل لگ رہا ہے

وقت آزادی ھندانگریزوں کے ہاتھوں، ڈیڑھ سو سالہ لوٹ کھسوٹ ڈکیتی بعد، مکمل تباہ و برباد کر چھوڑے بھارت کو، اپنے پینسٹھ سالہ کانگریس راج میں، کروڑوں دیش واسیوں کے لاکھوں کروڑ ٹیکس ادا کئے پیسوں ہی سے، اپنی دور رس نگاہ 5 سالہ ترقیاتی منصوبوں سے، لاکھوں کی تعداد میں اسکول کالجز کا ایک لامتناہی نظام پورے ملک کے گاؤں گاؤں دیہاتوں تک میں پھیلاتے ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں آئی آئی ایم ،

آئی آئی ٹی، میڈیکل و انجینیرنگ کالجز قائم کرتے ہوئے، دیش کو ترقیات کی راہ پر گامزن کرنے ہوئے، آل انڈیا کانگریس پارٹی نے 2014 تک دیش کی معشیت کو کچھ اتنا مضبوط و مستحکم کردیا تھا کہ، عالم کے معشیتی ماہر بھارت کو، 2030 تک، آج کے عالم کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی جگہ پر، اگلے سربراہ عالم چائینا کے ساتھ دوڑ میں بھارت کو بھی آگے بہت آگے دیکھ رہے تھے۔ لیکن ہم بھارت کے

140 کروڑ باشندوں کی یہ بدقسمتی تھی کہ، ایک زمانے سے اوصول پرست مشہور اور کروڑں رضاکاروں پر مشتمل پارٹی آرایس ایس ، بی جے پی کے مہاشکتی سالی، وائبرنٹ گجرات کے معمار 56″ سینے والے شری نریندر دامودر مودی جی کے “سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” جیسے دل لبھانے والے فلک شگاف نعروں وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے، 2014 سے پہلے

تک دنیا کی سب سے تیز ترقی پذیر بھارت کو، ان سنگھی حکمرانوں کے حوالے کیا اور نتیجہ آج دنیا والوں کے سامنے ہے۔کہاں 2030 تک عالم کی سربراہی کے لائق بننے والا سونے کی چڑیا ملک بھارت، آج عالم کے 200 ملکوں کی دوڑ میں ترقیات کے ہر زاوئیے کے اعتبار سے، بھارت سب سے پیچھے والے پائیدان تک پہنچ چکا ہے۔

بھارت کے 140 کروڑ باشندوں کے خون پسینے کی کمائی، جی ایس ٹی کے نام سے لوٹ لوٹ کر، اور صرف انگلیوں پر گئے جانے والے، کل کے مزدور پیشہ سائکلوں پر گھومنے والے ایڈانی امبانی جیسے گجراتی برہمن سرمایہ داروں کے لاکھوں کروڑ قرضے معاف کراتے ہوئے، اور انہیں عالم کے بڑے سرمایہ دار بناتے ہوئے۔ بھارت کے تعلیمی تجارتی صنعتی و ملکی حفاظتی ڈیفنس نظام تک کو نجکاری (پرائیویٹائز) کرنے کی سنگھی پالیسئز پر، کانگریس ہی کے تعمیر تعلیمی نظام کی ایک معنولی اسکول ٹیچر ہریانہ کی ببیتا میم نے،

جس بہتر اندازن اہنے اسکول کے بچوں کو ذہن نشین کراتے ہوئے، دیش کی سربراہی کرنے والی اگلی نسل، ان معصوم بچوں کو، اپنے دیش کو بچانے پر ابھارا ہے۔ تیزی سے سائبر میڈیا پر گردش کرتی اور وائرل ہوتی، اس کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کہ کس طرح سے یہ سنگھی ارایس ایس، بی جے پی والے، منظم سازش کے تحت، دیش کی انتظامیہ کے ہر حصہ کو، بتدریج اپنے چند گجراتی برہمن ھندو سرمایہ داروں کے

ہاتھ میں دیتے ہوئے، انہیں مالدار سے مالدار اور ہم 140 کروڑ دیش واسیوں کو غریب سے غریب تر بناتے ہوئے، پورے بھارت کو ان برہمنوں کا غلام بنائے جارہے ہیں۔ اور اسی منظم سازش کے تحت تعلیم نظام کی نجکاری (پرائیویٹائزیشن) کے ذریعہ، تعلیم کو مہنگی ترین کرتے ہوئے، دیش کے مستقبل، نوجوان نسل غریب و میانہ بھارت واسیوں کو اعلی تعلیم کے زیور سے ماورا (ونچت) رکھے 75 سالہ

بھارت کو ھندو وادی دھرم کے بہانہ دراصل، ہزاروں سال قبل والے آشوکا زمانے کا شودر برہمن بھید بھاؤ والا منو وادی برہمنی نفرتئ نظام واپس لانا چاہتے ہیں اور اپنی آس سازش کو روبہ عمل لانے کے لئے، اس دیش کی اکثریت ھندوؤں کو مسلم دشمنی کے گندے کھیل میں الجھائے رکھے، اپنا ھدف حاصل کرنے ہی میں مست و مشغول ہیں

جو سبق ہریانہ اسکول کی ایک معمولی ٹیچر ببیتا میم صاحبہ نے،اپنے معصوم اسکولی بچوں کے ذہن نشین کراتے ہوئے، انہیں اپنے دیش بھارت کو، ان سنگھی درندوں سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں، انکی تڑپتی دل کی آواز، اس کلپ کی صورت ہم تک پہنچنے کے باوجود، کیا ہم 140 کروڑ بھارت کے عوام، اپنے اپنے اولاد کی پرورش کی ہی فکر میں مستغرق سونے کی چڑیا بھارت دیش کو، ان سنگھی درندوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے چھوڑ تماشا دیکھتے رہ جائیں گے؟ اور مستقبل میں خود کو بھی چھوٹ چھات والے اس برہمنی منو وادی نظام کے مجبور شہری بنتے دیکھنا پسند کرتے ہیں

یہ اب ہم 140 کروڑ دیش واسیوں کو سوچنا ہے۔ آور دیش کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے والی، من موہن سرکار کو، ان سنگھیوں کے کہنے اکسانے پر،2011 دہلی جنترمنتر جن اندولن شروع کئے جیسا، سنگھ مکت بھارت ابھیان شروع کرتےہوئے چمنستان بھارت کو مزید تباہ و برباد ہونے سے بچا پاتے ہیں یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے دنیا کی ہر مخلوق چرند ہرند درند، حتی کے کیڑے مکوڑے بھی، ایک حد تک اپنی اولاد کی پرورش دیکھ بھال کرتے ہیں اگر صرف اپنے بچوں کی پرورش, یہی ذمہ داری ہم انسان کرتے ہوئے

اپنے آپ کو آشرف المخلوقات نہیں کہہ سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنی قوم و ملت و دیش کو بچانے آگے آنا ہوگا ہمارے پرم پوجیہ مہاتما گاندھی ڈاکٹر ابوالکلام آزاد جیسے دیش بھگت لیڈروں کے طرز پر، آج کے یہ گندمی رنگ والے فرنگیوں کے ہاتھوں چمنستان بھارت کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے آگے آنا ہوگاوما علینا الی البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں