پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں 36

سیاسی بحران کا واحد حل فور انتخابات !

سیاسی بحران کا واحد حل فور انتخابات !

عوام مہنگائی کے ہاتھوں کل پریشان تھے ،آج بھی انتہائی نالاں ہیں ،عوام تبدیلی چاہتے تھے، لیکن جو تبدیلی لائی گئی، وہ ان کے لیے بدترین ثابت ہورہی ہے، اس تبدیلی نے ان پر مہنگائی کی صورت میں مصائب کا نیا پہاڑ توڑ رکھا ہے،اتحادی حکومت کے سارے دعوئے دھر کے دھرے رہ گئے ہیں، حکومت کی عوامی فلاح سے زیادہ اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرانے میں دلچسپی ہے،اس لیے ایک طرف نیب کے سارے دانت اکھیڑے جارہے ہیںتو دوسری جانب خود کو بچانے کیلئے قوانین میں ترامیم کی جارہی ہیں،

اتحادی حکومت کی ترجیح عوام کے بجائے حصول اقتدار ہی رہا ہے ،حکومت اپنا اقتدار بچانے کیلئے تمام تر آئینی و غیر آئینی حربے استعمال کررہی ہے ، پنجاب میں حمزہ شہباز حکومت کو عدالتوں نے غیر آئینی قرار دیا، لیکن وزیراعلیٰ کے دوبارہ انتخاب تک حمزہ ہی کو برقرار رکھا گیا، جو کہ سراسر دھاندلی تھی، اس کا پنجاب کے عوام نے منفی اثر قبول کیا اور حمزہ حکومت کی طرف سے کیے گئے تمام اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیے دیا ،لیکن مسلم لیگ( ن ) نے عوامی فیصلہ قبول کرنے کے بجائے اپنی حکومت برقرار رکھنے کیلئے جو گھنائونی سیاست کی ہے، اس سے اپناچہرا مزید داغدار کرلیاہے۔
اس میں شک نہیں کہ اتحادی حکومت لانے والوں کے ساتھ عوام بھی اتحادیوں سے مایوس ہوئے ہیں ،ایک طرف اتحادحکومت کی ساری تجربہ کاری فیل ہوئی تو دوسری جانب ضمنی انتخابات میںمقبولیت کا بھرم بھی باقی نہیں رہا ہے ،اس وقت پی ٹی آئی کا جادوسر چڑھ کر بول رہا ہے ،اس کا سارا سہراپی ٹی آئی قیادت کو جاتا ہے ،پی ٹی آئی قیادت نے حکومت جانے کے بعدایک طرف اپنے احتجاجی بیانیہ کے

ساتھ تحریک چلائی تو دوسری جانب اپنی جاندار انتخابی مہم کے ذریعے ایسے تمام اداروں کو شدید نفسیاتی دبائو میں رکھا کہ جن کی طرف سے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا خدشہ تھا،اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ادارے اپنی مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنے سے دستبردار ہوگئے،لیکن حمزہ شہباز حکومت نے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کی ہے ،مسلم لیگ( ن ) دھاندلی سے چار پانچ سیٹیں جیتنے میں کا میاب تو ہوگئی ،مگر شاید اپنی حکومت بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔
مسلم لیگ (ن )ضمنی انتخابات میں بری طرح ناکام ہو نے کے بعد اپنی حکومت بر قر رکھنے کیلئے انتہائی گھنائونی سیاست کی ہے ، چودھری پرویز الٰہی اپنی جماعت (ق لیگ) کی طرف سے وزارت علیا کے امیدوار تھے اور تحریک انصاف ان کی حمایت کررہی تھی، اب کون سا آئین اور قانون کہتا ہے کہ ایک پارٹی کو اپنے ہی نامزد کردہ امیدوار کو ووٹ دینے سے روک دیا جائے، جب کہ پارٹی کا سربراہ بھی بار بار اس کی حمایت کرتا رہا ہے

،پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے چودھری شجاعت کے جس مبینہ خط کی آڑ لے کر (ق) لیگ کے ووٹ مسترد کیے کہ جس کی حیثیت متنازع ہوچکی ہے، یہ معاملہ اب عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے اور چیف جسٹس نے بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیے رہے ہیں۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ پارلیمانی معاملات عدالت عظمٰی میں پہنچ رہے ہیں ،پا رلیمانی معاملات پارلیمان میں ہی حل ہونے چاہئے ،لیکن سیاسی قیادت کے باہمی اختلافات اتنے بڑھتے جارہے ہیں

کہ اپنے معالات مل بیٹھ کر حل کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ،سیاسی قائدین ایک طرف اپنے پارلیمانی معاملات عدالت عظمیٰ میں لارہے ہیں تو دوسری جانب عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لیے بیانات کا طوفان برپاکرر ہے ہیں،اتحادیوں نے کیس کی سماعت کے لیے عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کا مطالبہ نامنظور ہونے پر عدالتی بائی کاٹ کا اعلان کر دیا ہے ،اس سے عدالتی کاروائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ،تاہم عدلیہ کا فیصلہ جس فریق کے بھی حق میں آیا دوسرا فریق اسے تسلیم نہیں کرے گا اور سیاسی
بحران بڑھتا ہی جائے گا،اس کا واحد حل فوری انتخابات ہیں، تا کہ سیاسی بے یقینی اور انتشار کا خاتمہ ہو اور ملکی معیشت کو سنبھلنے کا موقع مل سکے، یہ معاملہ صرف تخت پنجاب کا نہیں پورے پاکستان کی بقا کا ہے۔
بلا شبہ پاکستان کے ساتھ ہی سب کا سب کچھ ہے ،لیکن آج پا کستان کا کوئی پرسان حال نہیں ،سبھی اپنی سیاسی اَنا کی رسہ کشی میںمصروف ہیں ،ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکل معاشی صورتحال بظاہر کسی بھی سیاسی جماعت کی توجہ کا مرکز نہیں، ہر سیاسی جماعت خواہاں دکھائی دیتی ہے کہ اسے کسی بھی طرح ایوانِ اقتدار پر قابض ہونے کا موقع مل جائے،

یہ صورتحال اس لیے بھی بہت افسوس ناک ہے کہ عوام کے مسائل کا انبار سیاسی جماعتوں اور قائدین کی غیر سنجیدگی کے باعث بڑھتا جارہا ہے، اگر سیاسی قیادت واقعی ان مسائل کا حل چاہتی ہے تو اسے لڑائی جھگڑے اور الزامات کی سیاست کو ایک طرف رکھ کر ملک اور قوم کے وسیع ترمفاد میں کچھ ایسے فیصلے کرنا ہوں گے کہ جن کے اثرات سے عوام کی زندگی میں کوئی بہتر تبدیلی لائی جاسکے ،اس کیلئے سیاسی قائدین اور جماعتوں کو اپنے انفرادی اور گروہی مفادات کی قربانی دیتے ہوئے عوام کی عدالت میں جانا ہو گا ،سیاسی بحران کا واحد حل فوری انتخابات ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں