پاکستان میں معاشی ترقی کا بڑا غلغلہ رہتا ہے، لیکن یہ معاشی ترقی کی شرح افزائش لوگوں کے معیار زندگی میں 33

مہنگائی کے مارے عوام جائیں کہاں !

مہنگائی کے مارے عوام جائیں کہاں !

پاکستان میں آئے روز بڑھتی مہنگائی نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے، مگر متوسط طبقہ اور کم آمدن والے خاندان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، عوام کی رسائی اشیاء ضروریہ تک بھی انتہائی مشکل ہوتی جا رہی ہے، کھانے پینے کی عام چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، حکومت کے تمام تر دعوئے اپنی جگہ، لیکن عوامی مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں،ایک عام شہری کیلئے سبزیوں سے لے کر دال چاول تک سب اشیاء کی قیمتوں میں سو گنا اضافہ ہو گیا ہے،

یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء سرکاری نرخ پر ملتی ہیں ،لیکن لاکھوں کی آبادی کیلئے یوٹیلٹی سٹورز اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق، چند ایک ہی ہیں اور وہاں بھی خریداری کیلئے آئے ہوئے لوگوں کو ذلیل و خوار ہی ہونا پڑتا ہے، جبکہ عام دوکاندار کہیں بھی سرکاری نرخ فالو نہیں کررہے ہیں ، اس کے باوجومہنگائی میں پسے عوام آج بھی ریلیف کے منتظر ہیں اور یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب عوامی رلیف کا حقیقی خواب پورا ہوتا دیکھیں گے۔
یہ امر واضح ہے کہ حکمرانوں کی ترجیح عوام نہیں ذاتی مفادات ہیں ،اس کے باوجود عوام کی اُمیدیں حکمروانوں سے ہی وابستہ رہی ہیں ،جبکہ ہمارے حکمران بڑے بڑے محلات میں خود کو قید کئے بیٹھے ہیں اور گارڈز کی ایک لمبی قطار ان سے آگے اور پیچھے موجود ہوتی ہے،اس کی وجہ سے نہ انہیں عوامی مسائل دکھائی دیتے ہیں اور نہ عوام مسائل بیان کرنے کیلئے ان کے قریب آ سکتے ہیں،

آخر یہ عوام کس سے اپنے مسائل بیان کریں، کوئی تو ہو جو ان کے مسائل سنے اور ان کو نیک نیتی سے حل کرے یا کم از کم حل کرنے کی کوشش ہی کرے،عوام کوکہیں کوئی پرسان حال نظر نہیں آرہاہے ،عوام جائیں تو جائیں کہاں ،عوام کی دھائی اور فریاد سننے والا کوئی نہیں،عوام کے نام نہاد نمائندے عوام کی داد رسی کرنے کے بجائے اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
اتحادی حکومت مہنگائی کا خاتمہ اور عوام کو رلیف دینے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ،مگر ساڑھے تین ماہ میں سب دعوئے

اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،ادارہ شماریات کے حساس اعشاریوں کے انڈکس کے مطابق 30جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 37.67فیصد رہی، جوکہ اس سیگذشتہ سات روز کے مقابلے میں 3.68فیصد زیادہ ہے،کم آمدنی اور تنخواہ دار طبقہ کیلئے جو نصف سے زیادہ آبادی کا حامل ہے ، روزمرہ اشیائے ضروریہ کا حصول مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے،

جبکہ غریب اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں کوئی فرق ہی دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،اس ملک میں صرف دو طبقے ہی بچے ہیں ،ایک امیر اور دوسرا غریب ،جبکہ غریب کا جینا بڑھتی مہنگائی نے مشکل بنادیا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ غریب کیلئے سرکاری نرخ پر اشیاء ضرویہ فراہم کی جارہی ہیں، سبزیوں اور دیگر اشیاء کی خریداری کیلئے سستا بازار بنا دیئے گئے ہیں اور یوٹیلٹی سٹورز بھی اپنا کام کر رہے ہیں، عوام کو یہاں سے سرکاری نرخ پر سب کچھ مل سکتا ہے، لیکن کیا ایسا واقعی ہو رہا ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہو رہا ہے،

یو ٹیلٹی سٹوروں پرگھنٹوں انتظارکے بعد بھی لوگ خالی ہاتھ لوٹتے ہیں، آٹا او گھی ایک مخصوص وقت پر دکانوں کو سپلائی کیا جاتا ہے ،اگر حکومت عوام کو ریلیف پہنچانے میں واقعی مخلص ہے تو حکومت کو چاہئے کہ سرکاری نرخوں کا ہر جگہ اطلاق کر کے یقینی بنائے، تاکہ اشیائے ضروریہ تک غریب اور دور دراز رہنے والے لوگوں کی رسائی آسان بنائی جا سکے۔اس بڑھتی مہنگائی سے صرف عام آدمی ہی نہیں ،

بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہورہا ہے ،معاشرے میں انتشار کے ساتھ جرائم بھی بڑھتے جارہے ہیں، ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں عام ہوتی جارہی ہیںج،اس سے لوگ عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں ،اگر چہ پولیس اپنی محدود سہولیات میں جرائم کی روک تھام میں ہمہ تن گوش ہے اور کوشاں ہے کہ جرائم کا سد
باب کیا جا سکے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے اسباب ہیں کہ جو جرائم کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں؟ رہزنی کی وارداتوں کے بارے میں آئے روز میڈیا نشاندہی کررہا ہے کہ اس سب کے ڈانڈے بھی بے روزگاری اور غربت سے جاملتے ہیں، اس لیے جب غربت قابو کی جائے گی تو ہی جرائم کو بھی لگام دی جا سکے گی۔
حکومت کہتی ہے کہ ایک طرف مہنگائی پوری دنیا میں ہورہی ہے،تو دوسری جانب ملکی کے معاشی حالات ہیں،لیکن اس میں متوسط اور کم آمدن والے خاندانوں کا کیا قصور ہے؟ عوام سوال کرتے ہیں کہ کہاں گئے اتحادی حکومتی رلیف دعوائے او وعدے ؟ کہاں ہیں عوامی ریلیف کے پیکج؟ اگر حکومت کوئی

عوامی رلیف دیے رہی ہے تو کن لوگوں کو اور کہاں دیے رہی ہے ؟ وفاق میںحکومت مسلم لیگ( ن) کی ہو یا صوبوں میں تحریک انصاف حکومت ،دونوں کوعملی طور پر مہنگائی اوربے روز گاری کی کیفیت سے لوگوں کونکلنے کے لئے فوری طور پرمعاشی اصلاحات لانا ہوں گی، نوجوانوں کے لئے روزگار کی سہولتیں مہیا کرنا ہوں گی، ورنہ ملک کے حالات بدتر ہو تے جائیں گے اور ان حالات سے نمٹنا کسی حکومت کیلئے بھی انتہائی مشکل ہوجائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں