42

بساط پہ اک نظر

بساط پہ اک نظر

پروفیسر عائشہ یوسف،راولاکوٹ

فرہاد احمد فگار نے علم وادب کی بساط سجائی اور کچھ ایسے سجائی کہ جس کے مقدور بھر کھیلنے اور جیت جانے کا عزم اور یقین کامل دل میں راسخ بھی ہے اور محکم بھی۔

آزادکشمیر کی ادبی تاریخ اور سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ماقبل اس کے کئی ادبی و علمی مجلوں اور رسالوں کا اجراہوا جن کے توسط سے طائران ادب نے اڑان بھری ‘ نغمہ سنج ہوئے اور پھر تادیر محو پرواز نہ رہ پائے کہ ‘وفاداری بشرط استواری’ کا فلسفہ مفقود رہا ہو گا لہٰذا جلد ہی اپنی رفتار و گفتار کھو بیٹھے اور زمین پر آن رہے۔

فرہاد صاحب کی استقامت اور دل جمعی کا خوب خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ موصوف اول اول فرہاد ہوئے پھر وارفتگی شوق اور کوہ کنی کے ذوق نے فگار بھی کر ڈالا کہ لطف ہی کیا ہے جو چاک جگر چاک گریباں تک نہ پہنچے ۔

تیشے سے کوئی کام نہ فرہاد سے ہوا
جو کچھ ہوا وہ عشق کی امداد سے ہوا

جب تک مہر ایقان لوح دل پہ ثبت نہ ہو جائے؛ کوئی بھی کام ہونے سے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ “بساط” کا تیسرا شمارہ تکمیل کے مراحل میں ہے جو فگار صاحب کی مستقل مزاجی کا بین ثبوت ہے۔ اس لیے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس “بساط” کا تعلق بساط دل سے ہے جس کے لپیٹ لینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

اب اگر اس کے مضامین اور عنوانات کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو رنگارنگی اور تنوع کے ساتھ ساتھ مقصدیت کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔

گورنمنٹ بوائز انٹر کالج میرپورہ؛ ضلع نیلم سے جاری ہونے والا میگزین “بساط” اپنی نوعیت کا ایک منفرد علمی و ادبی مجلہ ہے۔ 124 صفحات پرمبنی یہ شمارہ 2021 میں زیورطباعت سے آراستہ ہو کر منظرعام پر آیا۔ اس کے سرپرست کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد رفیق، مدیر اعلا فرہاد احمد فگار اور مدیر بشارت خان کیانی ہیں۔

سب سے پہلے جاوید الحسن جاوید سیکرٹری پبلک سروس کمیشن کا ادارے کے لیے تہنیتی پیغام ہے ۔اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر خواجاعبدالرحمان ناظم اعلا تعلیم کالجز نے اس مجلے کو ادارے کے حق میں نعمت غیر مترقبہ قرار دیا ہے۔مزید برآں اس کے تسلسل کو بے حد سراہا ہے اور پھرکالج کے پرنسپل پروفیسر محمد رفیق صاحب نے

محدود وسائل کے باوصف رسالے کے اجرا کے سلسلے میں فرہاد احمد فگار کی پیہم اور متصل کاوشوں کے لیے انہیں نذرانہ تشکر پیش کیا ہے ۔اس موقع پر “عرض فگار” کے زیر عنوان فگار صاحب نے کالج کو درپیش مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے ارباب و احباب کی پذیرائی کا شکریہ ادا کیا ہے۔

اس کے عنوانات اور مضامین کے تنوع کا احاطہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ حمدیہ اور نعتیہ کلام سے نہ صرف رسالے کا آغاز کیا گیا ہے بل کہ سیرت النبی جیسے بسیط اور اہم موضوع کو سب سے پہلے جگہ دی گئی ہے اور پھر “خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق”کی شخصیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

اس پہ مستزاد یہ کہ نعت کے موضوع پر خوش بخت کمال کاتحقیقی مضمون”زبورحرم : ایک جائزہ” رسالے کے شکوہ میں اضافہ کا باعث ہے۔ہماری روایات و اقدار کے فروغ اور طلبہ کی تربیت کے لیے استاد کے احترام،علم کی اہمیت،اداروں کی ضرورت،کتاب کی افادیت،لائبریری کی مقصدیت،سچائی کی حقانیت،وقت کی قدردانی،ماں کی خدمت، عزت ، جنگ کے نقصانات اور دوستی جیسے موضوعات کا چناو کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں دو یا بسا اوقات دو سے زیادہ عنوانات کے تحت لکھا گیا ہے۔اس ضمن میں فرہاد احمد فگار صاحب کی اپنے استاد محترم کے لیے جذبہ عقیدت سے معمور تحریر”اسم باسمی’ شخصیت: ڈاکٹر شفیق انجم” خاصے کی چیز ہے۔جو ادبی حلاوت لیے ہوئے ہے۔

آزاد کشمیر کی غزل گوئی و شاعری،علاقائی زبانوں پر مضامین اور زبان اردو سے متعلق تحاریر ہماری زبانوں کی بیش بہا خدمات کا گویا ببانگ دہل اور بلا تفریق اعتراف ہیں۔ ڈاکٹریوسف میر کا تحقیقی و تنقیدی مضمون”ضلع نیلم میں اردو شاعری کی روایت” اسی سلسلے کی کڑی ہے۔انہی تحریروں کے پہلو بہ پہلو اردو اغلاط کی تصحیح زبان اردو سے گہرے لگاو اور رچاو کا پتا دیتی ہے۔ جو بلا مبالغہ فرہاد صاحب کے کارہائے نمایاں میں سے ایک ہے۔

کچھ تحاریر روداد نویسی کا تڑکا لگاتی ہیں تو کچھ آزاد کشمیر اور مری کے صحت افزا مقامات کی سیر کا لطف بہم پہنچاتی ہیں۔کہیں معدوم ہوتی تہذیب کا نوحہ ہے تو کہیں سنہری اقوال اخلاقیات سنوارنے کا وسیلہ بنتے ہیں۔

سینہ بہ سینہ چلنے والی لوک داستانیں ہماری روایات کی عکاس ہیں اوراس مجلے کی زینت بڑھاتی ہیں۔

تفنن طبع کے لیےطنزیہ و ظریفانہ کے باب میں “بیماریاں باعث رحمت ہوتی ہیں”سید معراج جامی کی قلم فرسائی کا ایک خوب صورت نمونہ ہے جو اس محفل ادب کو کشت زعفران بنا دیتا ہے۔

“بساط” قارئین کی نظر میں کے زیر عنوان بڑی وقیع ، جامع اور مستندو معتبر آرا پر مشتمل ایک رنگولی سجی ہےجس کے سبھی رنگ جدا جدا اوربڑے ہی دل چسپ ہیں۔

آخری صفحات چند غزلیات اور ایک نظم سے مزین ہیں۔ جن کی شعریت اپنی جاذبیت لطافت اور چاشنی سے قوت متخیلہ کو متحرک کرتی ہے۔

ہم یہ کہِ سکتے ہیں کہ اس رنگارنگ مسالوں کی چاٹ نے مجلے کو دیدہ زیب اور دل فریب بنا رکھا ہے اور یوں ۔۔۔۔ یہ بزم بساط؛ بزم نشاط بن جاتی ہے۔

باقاعدہ اشاعت کے تیسرے برس مجلے کی خصوصی اشاعت کا التزام کیا گیا ہے۔جسے “عبدالعلیم صدیقی اسپیشل نمبر” کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔فرہاد صاحب اس مجلے کی نوک پلک سنوارنے کے لیے بہ نفس نفیس دن رات کام میں جتے ہوئے ہیں لہٰذا زبان میں نکھار پیدا ہونا لازمی امر ہے۔قطع نظر کئی خوبیوں کے،مجلے کی حروف خوانی کچھ اور محنت کا تقاضا کرتی ہے تاکہ تحریر قارئین کےطبع نازک پہ گراں بارنہ رہے۔ علاوہ بریں مجلے کو بہ اعتبار اصناف ادب یا زبانوں کی ذیل میں بھی ،

کئی حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ اور فگار صاحب چوں کہ شاعری ، تحقیق، تنقید اور جستجو کے مرد میدان ہیں تو امکان اغلب ہے کہ ایسی ادب نواز سرگرمیوں کی بدولت وہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد میں تحقیق و تنقید کا مادہ اور ذوق وشوق پیدا کرنے کا باعث ہوں گے۔انھوں نے اس ادبی قحط سالی کے دور میں ادب کی پرداخت ، تربیت اور ذہن سازی کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جو فی زمانہ فروغ زبان اردو کے سلسلے میں ناقابل فراموش خدمت ہو گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں