عوام ابھی بجلی کی قیمت میں اضافے کا جھٹکا برداشت نہیں کر پا رہی تھی کہ حکومت نے ایک بار پھرپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں 44

قومی ڈائیلاگ وقت کی ضرورت

قومی ڈائیلاگ وقت کی ضرورت

اِس وقت ملک میں ایک طرف سیاسی بحران ہے تو دوسری جانب بڑھتی مہنگائی میں بدترین غربت اور بیروزگاری کے ساتھ انتہائی گھٹن بھی جنم لے چکی ہے جو کسی وقت بھی ایک لاوے کی شکل میں پھٹ سکتی ہے اور اِس تباہی کا راستہ روکنے کا اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے

کہ جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شریک ہوں،لیکن سوال یہ ہے کہ اس ڈائیلاگ کا اہتمام کون کریگا ،جبکہ حزب اقتدار اور حزب اقتدار قیادت ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ ملک ترقی و خوشحالی اور استحکام کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لئے جو بھی کرنا پڑے کیا جائے،لیکن قوم ہمیشہ اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھتی ہے،

جبکہ قیادت کی تر جیحات میں کچھ اور ہی نظر آتا ہے، اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہم اپنے نظم اجتماعی کی حفاظت نہیں کر سکے،بالاتر از آئین اقدامات اور طالع آزماؤں کی مداخلت نے ہمیں سیاسی خانہ جنگی میں مبتلا کیے رکھا ہے ، اس کے باوجود پاکستانیوں نے ہر میدان میں ترقی کی ہے، اگر ہم تقسیم نہ ہوتے اور دستوری نصب العین کو سبوتاڑ نہ ہونے دیتے تو وہاں کھڑے ہوتے کہ جہاں دنیا ہماری ترقی و خوشحالی کی مثالیں دے رہی ہوتی اور اقوامِ عالم میں ہمارا شمار کشکول اٹھانے والے ممالک کی بجائے کشکول بھرنے والے ممالک میں ہوتا ،لیکن ہمیں سیاسی انتشار نے معاشی طور پر اتنا کمزور کر رکھا ہے

کہ ہر وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ہمارے ملک کا منظر نامہ تبدیل ہونے میں ہی نہیں آرہاہے، ملک بھر میں سیاسی بے چینی اور بے یقینی برھتی ہی جارہی ہے، بنیادی قومی معاملات پر بھی نااتفاقی اور عدم برداشت کا عنصر غالب آ چکا ہے، اس سے نکلنے کے لئے کچھ تو کرنا ہی پڑے گا، ہر ایک کو اپنی حیثیت میں قربانی دینا ہی پڑے گی، یہ زیادہ دیر تک نہیں ہو سکتا کہ سب اجتماعی مفاد سے غافل رہیں اور اپنے انفرادی مفادات کو ہی فوقیت دیتے رہیں،اس کے لیے ہی قومی مکالمے کی بات کی جاتی ہے

،لیکن ہمارے ہاں سیاسی پولرائزیشن اتنی برھتی جارہی ہے کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کی بات سننا تو درکنار ایک دوسرے سے ہاتھ تک ملانے کو بھی تیار نہیں ہو رہے ہیں،سیاسی قیادت جب ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تو میثاق معیشت کی تجویزبے معنی ہو جاتی ہے۔اس وقت پاکستان یک بعد دیگرے بحرانوں میں گھرا ہے، ایک طرف سیاسی ومعاشی بحران ہے تو دوسری جانب قومی ہم آہنگی،

دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی، صوبوں اور وفاق کے درمیان مثالی تعلقات، قومی معاملات میں توازن اور بہت سے ایسے بنیادی ایشوز ہیں کہ جن پر ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے،ہمارے ہاں نئے معاہدوں کی ضرورت کا بھی تذکرہ ہوتا رہتاہے، اس پہلو پر بھی ضرور بات ہونی چاہیے، تاہم اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے

کہ سیاسی قوتیں اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات بھلا کر قومی مفاد کے بارے میں سوچیں، صرف اقتدار کے لئے سیاست کرنا بڑی چھوٹی خواہش ہے، سیاست اقدار اور قومی مفاد کے لئے بھی کی جانی چاہیے۔
ہر دور اقتدار میں بڑھتے اختلافات کے پیش نظر نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیاجاتا رہا ہے،اس بار بھی زور دیا جارہا ہے، تاہم اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئیحکمران قیادت کو ہی ایک قدم آگے بڑھانا ہو گا اور ایک قومی ایجنڈا طے کرکے سب سٹیک ہولڈرز کو مکالمے کی دعوت دینا ہو گی، اگر ہمارے اکابرین ایک متفقہ آئین بنا سکتے ہیں تو ہمارے آج کے قائدین ایک متفقہ قومی نصب العین کا تعین کیوں نہیں کر سکتے ہیں ؟

پاکستان مختلف چیلنجوں میں گھرا ہے اورحکومت اکیلئے ان چیلنجوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی ، اس کے لئے پوری سیاسی قیادت، عسکری و سول ادارے اور خود عوام جب تک اس ایک نکتے پر متفق نہیں ہوتے کہ ہم نے پاکستان کو ہر نوع کے بحرانوں سے نکالنا ہے اور اس کے
بارے میں سب سے پہلے سوچنا ہے

اور پھر اسی کے مفاد کی خاطر زندگی گزارنی ہے،اگر وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے بھی نیشنل ڈائیلاگ کو نظر انداز کیا گیاتوایک مضبوط، خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان بنانے کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں