2 فروری 1835 کو لارڈمیکالے نے برطانیہ کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میں نے ہندوستان 33

یہ کیسا نشہ ہے, میں کس عجب خمار میں ہوں

یہ کیسا نشہ ہے, میں کس عجب خمار میں ہوں

تحریر راجہ فرقان احمد

کچھ دنوں پہلے پیارے دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کے ایک مقامی کیفے جانے کا اتفاق ہوا. اکثر میرے دوست میری تنقیدی سوچ کے باعث مجھے اپنے ساتھ لے جانے سے کتراتے ہیں لیکن مجال ہے کہ میں ان کا پیچھا چھوڑو. اسی ضد اور خمار میں ان دوستوں نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی حامی بھر ہی لی. خیر میں کہاں پیچھے رہنے والا تھا. جب ویٹر کی طرف سے آرڈر لینے کی باری آئی تو سب نے اپنی فرمائش بتائیں. اس دوست نے ہماری فرمائش پوری کرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی جس کا میں مشکور ہو اور اللہ تعالی دوسرے دوست کو بھی اس کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے

. ان میں سے ایک دوست نے آرڈر کے اختتام پر کہا ایک شیشہ بھی لے آئے جس کا فلیور منٹ ہو. میں یہ الفاظ سن کر پہلے تو پریشان پھر حیران ہوا کہ کس طرح آج کل کی نسل کوشیشہ پینے کی لت لگ چکی ہے. میں نے تھوڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دوستوں کے سامنے آواز بلند کرنے کی کوشش کی لیکن میری آواز پر کان نہ دھرے گئے اور دبا دی گئی. میں نے بھی حالات کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا

اورزندگی میں پہلی بار ایک دو کش لگائے لیکن طبیعت نے ساتھ نہ دیا اور پینے سے محروم ہوگیا. میں کہاں پیچھے رہنے والا تھا سو میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کردیں. دن ہو یا رات, شہر ہو یا دیہات اکثر آپ کو دوستوں کا گروپ نظر آئے گا جو کسی کیفے میں بیٹھ کر شیشے کا استعمال کر رہے ہوں گے. نہ صرف ریسٹورینٹ یا کیفے میں بلکہ اب تو یہ سہولت گھروں میں بھی میسر ہے. لوگ اسے خرید کر گھروں میں بھی استعمال کرتے ہیں. تفریح کے طور پر بنایا گیا یہ روجھان بہت تیزی سے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے

مگر افسوس کہ یہ اتنا خطرناک ہے کہ معاشرہ اس سے واقف نہیں. طبی ماہرین کہتے ہیں کہ شیشہ پاکستان کے گاؤں دیہاتوں میں مقبول “ہوکے” کی جدید شکل ہے اور ذائقے دار تمباکو کا نام ہے. اسے جس تیزی سے سماجی مقبولیت مل رہی ہے یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہیں اور اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں.
ایک رپورٹ کے مطابق شیشے کے استعمال میں والدین کا ہم کردار ہے ریسٹورنٹ, کیفے مالکان کی جانب سے والدین کو بتایا جاتا ہے کہ اس میں تو بس فلووورس ہیں اس کا کوئی نقصان نہیں. لیکن بات یہ سوچنے اور سمجھنے کی ہے کہ اس میں نکوٹین کیوں رکھا کیا ہے. مقصد اس کے رکھنے کا یہ ہے کہ نوجوان اس کے عادی ہوجائیں نوجوان شیشے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ اس کے بغیر وہ پڑھ ہی نہیں سکتے اور نہ اپنی زندگی پر توجہ دے سکتے ہیں. پھر شیشہ ان کی زندگی کا جوز بن جاتا ہے.
آئے روز شیشہ کیفے کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے. ایک شیشے کی قیمت کم سے کم آٹھ سو روپے ہے. اس معاملے میں ایک دوست سے روجو کیا جس کا اپنا شیشہ کیفے ہیں. تقریبا دو سالوں سے وہ دن دگنی اور رات چوگنی اس کام میں ترقی کر رہا ہے. اس کے بقول تقریبا دن کے 40 سے 50 ہزارتک کی کمائی ہو جاتی ہے. اس نے مزید بتایا کہ شیشے پینے میں نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیوں کی بھی کافی زیادہ تعداد ہوتی ہے.
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک گھنٹہ شیشے کا استعمال 100 سگرٹوں کے برابر ہے. مزید یہ کہ جب ان فلیور پر تجزیہ کیا گیا تو نیکٹین جیسے خطرناک کیمیکل کی نشاندہی کی گئی. جس سے کینسر, دما, امراض قلب, ٹی بی اورخواتین اور مردوں میں بانجھ پن کا رجحان بھی بڑھ جاتا ہے. حاملہ خاتون کے لئے یہ بہت خطرناک ہے.
شیشے کے اندر کاربن مونو آکسائیڈ کا لیول بہت زیادہ ہوتا ہے. کاربن مونوآکسائیڈ خون کے ذریعے پورے جسم میں پہنچتی ہے اور آکسیجن کو گھٹا دیتی ہے جس سے دل کو بھی آکسیجن کم ہو جاتی ہے اور دماغ میں بھی. لیڈ, کوبالٹ بھی شیشے میں پائی جاتی ہے. ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 80 فیصد نوجوان شیشے کا استعمال کرتے ہیں جبکہ خواتین میں بھی یہ تناسب 60 سے 65 فیصد ہے.
اے این ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں روزانہ 685 لوگوں کی اموات صرف منشیات کی وجہ سے ہوتی ہے. جب کہ دہشت گردی کے باعث روزانہ 49 لوگوں کی اموات ہوتی ہے.
پاکستان میں خصوصی طور پر اس مسئلہ کو اجاگر نہیں کیا جا رہا. حکومت کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں کی جارہی

. پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس کا کام منشیات کے خلاف کاروائی کرنا ہے. لیکن بدقسمتی سے اس ادارے کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اس معاملے پر کوئی کارروائی کر سکے. سہولیات اور نفری نہ ہونے کے باعث ان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے. ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریبا 500 اے این ایف جوان پنجاب میں فرائض انجام دے رہے ہیں

. جو تعداد کے لحاظ سے کافی کم ہے.
خیر ہم سب کو اس معاملے کو سنجیدہ لینا ہوگا اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بہتر فیصلے کرنے ہونگے. میری وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ جلد سے جلد شیشے کے خلاف قانون مرتب کیا جائے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس شر سے پاک ہو سکے. والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں.آخر میں ان دوستوں نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ برائے مہربانی اس پر کالم نہ لکھنا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں