ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 32

باکمال حکمران لاجواب نجکاری

باکمال حکمران لاجواب نجکاری

ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں،لیکن حکمرانوں کے بینک اکاونٹس میں روز بروز اضافہ ہو تا جائے تو ایسا ملک قابل رحم ہی گردانا جاتا ہے ،ہر حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے خسارے میں جانے والے اداروں کو خسارے سے نکالنے اور جن اداروں کی بحالی ممکن نہیں ،انہیں فروخت کرنے کا وعدہ کرتی آٓئی ہے،

مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان کی توجہ قومی اداروں کا خسارہ کم کرنے پر نہیں، بلکہ منافع کمانے والے اداروں کو اونے پونے داموں من چاہے افراد کو فروخت کرنے پر زیادہ رہی ہے ، گزشتہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ایک نجی بنک کو آفس فرنیچر سے بھی کم قیمت میں فروخت کردیا گیا تھا ،اس بار بھی اتحادی حکومت ویسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کررہی ہے، ایک بار پھر قومی اداروں کے خسارے کے انکشافات ہو رہے ہیں ،ایک بار پھر باکمال حکمران کی جانب سے لا جوب نجکاری کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یہ بات ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے کہ ملک کے اکثر ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، لیکن ایسے کچھ بڑے ادارے بھی متاثر ہیں کہ ان کی بحالی ہی ممکن دکھائی نہیں دیتی ہے ، یہ ادارے قومی خزانے پر بوجھ بنتے جارہے ہیں، وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث نے بھی سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں 201 سٹیٹ اون انٹر پرائز میں سے اکثر قومی خزانے پر بوجھ ہیں،

لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ منافع بخش ادارے خسارے کا شکار کیسے ہوئے اور اس کا ذمہ دار کون ہے ،ہر دور اقتدار میں لاکھ دعوئوں کے باوجود ان اداروں کی بحالی میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکی ہے ،کیو نکہ حکومت میں موجود لوگوں کے مفادات آڑے آتے ہیں،انہیں اداروں کی بحا لی کے بجائے نجکاری زیادہ سوٹ کرتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کے منافع بخش اداروں کی تباہی کا ذمہ دار حکومت میں موجود مفاد پرست مافیا ہے ،یہ مفاد پرست مافیا ایک طرف ان داروں کو خسارے میں مبتلا کر رہا ہے تو دوسری جانب خسارے کے شکار اداروں کو اونے پونے بھائو خریدرہا ہے اور اس مافیا پر ہاتھ ڈالنے ڈالا کوئی نہیں ،کیو نکہ اس کی جڑھیں ایوان اقتدار میںمضبوط ہیں ،ایوان اقتدار میں جب تک ایسے مفاد پرست لوگ رہیں گے ،

ادارے خسارے کا شکار ہو کر بکتے رہیں گے ،حکومت کے سارے دعوئے زبانی کلامی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہوتے ہیں ،حالانکہ اگر حکومتی قیادت چاہئے تو خسارے کا شکار ادارے منافع بخش بناسکتے ہیں ،کیو نکہ اتحادی قیادت ساری کاروباری ہے ،اس کے اپنے سارے کاروبار منافع بخش ہیں ،مگر قومی اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں ،کیو نکہ ان سب کا مفاد اداروں کو منافع بخش بنانے میں نہیں ،خسارے میں رکھ کر حاصل ہوتا ہے۔دنیا میں ایسا کونسا کام ہے

کہ جو ممکن نہیں بنایا جاسکتا ، اداروں کی بحالی بھی ایک ایسا ہی کام ہے ، اس سلسلے میں چین، جاپان، کوریا، تائیوان اور ملائیشیا کی مثالیں سامنے ہیں، بلکہ چین اور جاپان تو اب ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوچکے ہیں، لیکن اگر ملائیشیا ہی کی مثال لے لی جائے تو اس کی ترقی کیلئے مہاتیر محمد کے اصول اپناتے ہوئے اپنے ملک کے قومی اداروں کو ترقی دے کر اپنی معیشیت کو مستحکم بناسکتے ہیں۔ لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے ،کیوں کہ ایسا کرنے کیلئے ذاتی وسیاسی مفادات قربان کرنے پڑیں گے ،

یہ ہماری حکمران قیادت کبھی منظور نہیں کرے گی ،وہ مہاتیر محمد ہی تھے کہ جنہوں نے اپنے ملک کی ترقی کیلئے اپنی سیاست قربان کردی، انہوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال کر عزت کے ساتھ حکومت چھوڑ دی تھی ،جبکہ ہمارے حکمران حصول اقتدار میں سب کچھ دائوپر لگاسکتے ہیںاور اقتدار میں رہنے کیلئے سب کچھ
فروخت بھی کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے قومی ادارے قومی زندگی کا اہم ترین سرمایہ ہیں،ملک کو ان کو قومی جسد سے کاٹ کر زندہ نہیں رکھا جاسکے گا، پاکستان کے مالیاتی اداروں کو نوچنے کے لیے عالمی سرمایہ کاری کے گدھ پاکستان پر منڈلا رہے ہیںاور حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ بھی وہی ہے کہ جو عالمی مالیاتی اداروں کا ہے،تاجر حکمران خسارے کی حکومت اور سیاست کرنے کے قائل ہی نہیں،یہ قومی اداروں کی نج کاری کی بات کر رہے ہیں

اور دعویٰ رکھتے ہیں کہ ان اداروں کی نجکاری سے معیشت صحت مند ہوگی ،جبکہ یہ درست نہیں ہے ،حکومت کو چاہئے کہ مہنگے ترین منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجائے بیمار یونٹوں کو صحت مند کرتے ہوئے نفع بخش بنائے اور قومی اثاثوں کی حفاظت کرے ،کیو نکہ اس سے ملک کی خوشحالی کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد کا روزگار بھی وابستہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں