ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 41

ملکی بحران کا واحد حل انتخابات !

ملکی بحران کا واحد حل انتخابات !

ملک کے سیاسی افق پر پھیلا گرد و غبار چھٹنے لگا ہے اورایسا لگنے لگا ہے کہ جیسے سیاسی موسم میں کسی بھی وقت غیر متوقع تبدیلی آجائے گی ،اس حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا بھی کہنا ہے کہ ملکی سیاست میں بریک تھرو دور نہیں،بہت جلد اچھی خبر آنیوالی ہے، سیاست میں مفاہمت ہو سکتی ہے، سیاسی مسائل کا حل مذاکرات اور انتخابات ملکی بحرانوں سے نکلنے کا بہترین راستہ ہے، صدر مملکت کا بیا ن نشاندہی کر رہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے الیکشن کا مرحلہ قریب آرہا ہے،

ملک میںشفاف انتخابات ہی شاید سارے بحرانوں سے نکلنے کا واحد حل ہے۔اس وقت ملک میں سیاسی طور پر دیکھاجائے تو درپیش ماسائل کا واحد حل انتخابات ہی دکھائی دیتا ہے ،تاہم اتحادی حکومت سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے انتخابات کروانے سے گریزاں ہے ،حکومت اپنی مدت پوری کرنے پر بضد ہے ،

جبکہ پی ٹی آئی فوری انتخابات کیلئے دبائو بڑھائے جارہی ہے ، سیاست میںدونوں ہی کیمپ کی محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے‘ ایک سابق وزیراعظم عمران خان کا کیمپ ہے کہ جس میں انکے ساتھ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کا ایک دھڑا شامل ہے، جبکہ دوسرا کیمپ عمران خان مخالف تیراں سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے ،وفاق اورسندھ میں تیرہ جماعتی اتحادی کی حکومت قائم ہے، جبکہ پنجاب‘ خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکمرانی ہے ،سیاسی مخالفت کی بناپر وفاق اور پی ٹی آئی کی تین صوبائی حکومتوں کے درمیان انتہائی مخاصمت کی ایک ایسی فضا قائم ہے

کہ جو کم ہونے کی بجائے آئیروز بڑھتی ہی جارہی ہے ،اس صورت حال میںسیاسی جماعتوں کو ٹکرائو اور لڑائی جھگڑے کی سیاست ختم کرکے غیر جانبدارانہ انتخاب کی طرف جانا چاہئے،مگر اتحادی قیادت انتخابات سے انحراف کرکے غیر جمہوری سوچ کا مظاہرہ کرنے پر تلی ہے۔
پی ڈی ایم قیادت اقتدار میں آنے سے قبل خود انتخابات کیلئے تحریک چلاتے ر ہے ہیں ،مگر اقتدار میں آنے بعد سے انتخابات سے بھاگ ر ہے ہیں

، کیونکہ انہیں انتخابات میں اپنی ہار صاف نظر آنے لگی ہے ،اتحادی پی ٹی آئی قیادت کی بڑھتی شہرت سے خوف زدہ ہو کر اندر سے دو حصوں میں بٹ چکے ہیں،ایک حصہ حکومت کے ساتھ ہے اور دوسرا سمجھتا ہے کہ ان کے خلاف بڑی سازش ہورہی ہے ،اس سازش کے تحت ہی اتحادیوں کو استعمال کرکے عمران خان کو اگلے دس سال تک حکومت دینے کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے، عمران خان کیٓ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے والے بیان پر پھر بھی یہی کہا جارہا ہے کہ اندر سے سب لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں،

اتحادی حکومت نہ صرف عام انتخابات سے بھاگ رہی ہے ،بلکہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایک میز پر بیٹھنے سے بھی گھبرانے لگی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے موجودہ حکومت کو پریشان کر رکھا ہے ، خاص طور پر لندن میں نواز شریف اور لاہور میں مریم نوازکچھ زیادہ ہی پریشان دکھائی دیے رہی ہیں،انہیں پریشان ہونا بھی چاہئے، ابھی چند ماہ پہلے ہر حلقے میں سب سے زیادہ مانگ( ن )لیگ کے ٹکٹ کی تھی،مگراب( ن ) لیگ کا ٹکٹ خود نون لیگ والے بھی لینے کیلئے تیار نہیں ہیں،

پچھلے الیکشن میں تو ایک دو حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں کسی نے اپنے کا غذات ِ جمع نہیں کرائے تھے،اس مرتبہ توقع ہے کہ بے شمار حلقوںمیں ایسا منظر دیکھنے کو ملیں گے،کیو نکہ جب واضح طور پر شکست نظر آرہی ہو تو کوئی کروڑو ں روپے برباد کرکے ہار کی بدنامی لینے کیلئے تیار نہیںہے۔
اس بدلتی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیاست کو سمجھنے والے کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں،ایک کسی طرح اسے پنجاب حکومت واپس مل جائے،دوسرا وہ فوری طور پر انتخابات کی طرف چلی جائے ،حکومت کیلئے دونوں ہی راستے مشکل ہیں ،اتحادی حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا جارہا ہے کہ نگراں حکومت بنا دی جائے اور پھر اس کا دورانیہ بڑھانے کی کوشش کی جائے،

مگرشاید گزرتے وقت کے ساتھ سارے ہی فارمولے ناکام ہوتے جارہے ہیں، پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے ،جبکہ انتخابات میں اتحادیوں کیلئے ہار ہے ،جہاں تک بات معزز عدلیہ کی ہے تووہ اپنی عزت پر حرف آنے دیں گی نہ مقتدر حلقے اپنا وقار خراب کریں گے،اتحادی حکومت کو دیر یا سویر نہ چاہتے ہوئے بھی انتخابات کی جانب ہی جانا پڑے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں