پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 54

حکمران کی نگاہ سے اوجھل سیلاب زدگان !

حکمران کی نگاہ سے اوجھل سیلاب زدگان !

ملک بھر میں سیاست کا بازار خوب گرم ہے،مریم نواز کے جانے سے لے کرنواز شریف کی واپسی تک خوب بحث ہو رہی ہے،ایک طرف ڈالر کی بلند پروازی قابو کرنے پر اسحاق ڈار خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تو دوسری جانب عدالتوں کے مختلف فیصلوں پر قانونی و آئینی ماہرین اپنی قابلیت کا خوب اظہار کر تے نظر آتے ہیں،لیکن اس ساری گہما گہمی کے دوران سیلاب زدگان سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو تے جارہے ہیں

،سیاسی قیادت بھی اب سیلاب زدگان کے بجائے دیگر موضوعات پر بات کرنا پسند کرتے ہیں،جبکہ سیلاب زدگان کی آج بھی صورت حال انتہائی خراب ہے،برسات کے بعدسردیوں کی آمد ہے اور سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارومدد گار زندگی گزارنے پر مجبور نظر آرہے ہیں۔اتحادی حکومت سیلاب زدگان کی بحالی کی دعویدار ہے ،جبکہ سیلاب زدگان امداد نہ ملنے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ،

دنیا بھر سے سیلاب زدگان کیلئے امدادی سامان آیا ،اندرون ملک بھی سیلاب زدگان کی بھر پور مدد کیلئے کائوشیں ہوتی رہی ہیں ،اس کے باوجود سیلاب زدگان کا امداد سے محروم رہنا سمجھ سے بالا تر ہے ،اگر دیکھا جائے تو تنگ آکرسیلاب زدگان کی زیادہ تر تعداد اپنی مدآپ کے تحت ہی اپنی بحالی کی جدو جہد کرنے لگی ہے ،تاہم سیلاب زگان کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں، اس لیے سیلاب زدگان نے انتہائی مایوسی کے عالم میں کہنا شروع کردیا ہے کہ ہمارے علاقے سے صرف پانی نکال دیا جائے

،ہمیں حکومتی امداد کی ضرورت نہیں ،ہم اپنی مدد آپ کے تحت ہی گزارا کر لیں گے ۔
اس وقت پاکستان کے قابل کاشت رقبے کا 40فیصد زیر آب ہے ،سیلاب میںلوگوں کے مال ، مویشی بہہ چکے ہیں،اس کا ابھی تک کوئی مداوا کیا جاسکا نہ کوئی مو ثر لائحہ عمل مرتب کیا جا رہا ہے ،سیلاب متا ثرین کیلئے ایک طرف مالی مسائل ہیں تو دوسری جانب بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے ایک نئی آزمائش میں دھکیل دیا ہے

،سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہیں،کھڑے پانی سے ڈینگی جیسے وبائی امراض بھڑنے لگے ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کی روک تھام کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا جارہا ہے ،حکومت وبائی امراض پر قابو پانے میں جہاں ناکام نظر آتی ہے،

وہیں ذرعی سرگرمیاں بحال کرنے میں بھی انتہائی سست روی کا مظاہرہ کررہی ہے ،اس سے اندیشہ بڑھنے لگاہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں آئندہ سال کے لئے گندم کی کاشت بھی نہیں کی جاسکے گی۔
ملک میں ایک طرف سیلاب کے باعث غذائی قلت کا سامنا ہے تو دوسری جانب وفاقی ادارہ شماریات کے ستمبر میں جاری اعدادوشمار کے مطابق افراط زر کی شرح 42.7 فیصد تک جا پہنچی ہے ، ملک بھر میںمہنگائی کم ہو نے کی بجائے آئے روز بڑھتی جارہی ہے ،مارکیٹ میں زرعی اجناس کی شدید قلت کی وجہ سے ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،

جبکہ بیرون ملک سے سبزیاں درآمد کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں،ایسے حالات میں ملک کی سیاسی قیادت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے سیلاب زد ہ علاقے کے ساتھ سیلاب زدگان کی طرف توجہ دینی چاہیے،سیلاب متاثرین کے ساتھ امدادی سامان دینے کے فوٹو سیشن بہت ہو چکے ،اب عملی اقدامات کر نے کی اشد ضروررت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے گا ہے

بگاہے دورے ضرور کرتے رہے ہیں،دنیا بھر سے امداد بھی مانگ رہے ہیں،لیکن اس کے باوجود سیلاب زدگان کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے،سیلاب زدگان بے یارومدد گار ہیں اور سیلاب کا پانی بھی جوں کا توں کھڑا ہے ، وبائی امراض پھیل رہے ہیں ،غذائی قلت کے شکار بچے بنیادی ادویات سے محروم ہیں،بے گھر ہونے والے افراد تاحال کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں ،

جبکہ حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی کھیل سے فرصت نہیں ،دونوں ایک دوسرے کو گرانے میںسیلاب زدگان کوبھول چکے ہیں ، حکومت کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے امداد مانگنے کے ساتھ بحالی کے اقدام پر بھی توجہ مرکوز کرے ،بے گھر افراد کی بحالی کے لیے ٹھوس منصوبے بنائے،کسانوں کے نقصانات کی تلافی کی جائے،سیلاب میںجن لوگوں کے مال مویشی بہہ گئے ہیں

، انہیں متبادل کے طور پر جانور مہیا کئے جائیں،لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ کی ترجیحات ے سیلاب زدگان دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں، فوٹو سیشن کے بعد اب دوروں کا سلسلہ بھی ختم ہونے لگا ہے، اگراس بے حسی کی صورت حال میں کوئی بڑا انسانی المیہ رونما ہوگیا توعوام کبھی حکمران طبقے کو معاف نہیں کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں