پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 45

فوری انتخابات سے سیاسی استحکام !

فوری انتخابات سے سیاسی استحکام !

تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں تاریخی کا میابی کے باوجود حکومت عمران خان کا فوری انتخابات کامطالبہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، جبکہ عمران خان بضد ہیں کہ فوری انتخابات کرائے جائیں، وگرنہ لانگ مارچ کی کال دیں گے،اتحادی قیادت اور پی ٹی آئی قیادت کے درمیان ایک واضح ڈیڈ لاک ہے

کہ جسے ختم کرنے کی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ،اگر چہ تحریک انصاف قیادت نے بیک ڈور رابطوں کی تصدیق کی ہے، لیکن مذاکرات کے ہونے یا نہ ہونے کی بابت کھل کر اظہار نہیں کیا ہے ،تاہم اْن کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ وہ لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بریک تھرو کا انتظار کر رہے ہیں۔
اتحادی قیادت اور بالخصوص شریف خاندان عام انتخابات سے یوں صاف انکار کررہے ہیں کہ جیسے ابھی عوام سے فریش مینڈیٹ حاصل کر کے اقتدارمیں آئے ہیں،جبکہ انہیں چھ ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے اورکوئی قابل ذکر کار کردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں ،ایک طرف حکومت عوامی فیصلہ ماننے سے گریزاں ہے

تو دوسری جانب مقتدر حلقے بھی اپنی ضد پہ اڑے ہوئے ہیں ،حالانکہ انہیں تحریکِ انصاف کی ضمنی انتخاب میںفتح کے بعد اپنا وزن نئے الیکشن کے پلڑے میں ڈال دینا چاہئے،تا کہ عوام کی عدالت میں فیصلہ ہو جائے کہ اقتدار میں کون رہے گا اور کون جائے گا ،تاہم اس کے برعکس عوامی فیصلے عوامی عدالت کے بجائے بند کمروں میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ بند کمروکے فیصلے کبھی قابل قبول ہوئے

نہ ان سے سیاسی استحکام آیا ہے ،ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئے عام انتخابات نا گزیر ہیں ،جبکہ اتحادی حکومت عام انتخابات کروانے سے بھاگ رہی ہے ،اتحادی اور پی ٹی آئی قیادت سیاسی معاملات سیاسی انداز میں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے بجائے دست گریباں ہیں ،ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جارہی ہیں

،ایک دوسرے کو اشتعال دلا یا جارہا ہے ،تحریک انساف قیادت کا کہنا ہے کہ مارچ ہوا تو ضمانت نہیں دے سکتے کی اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ عوام سڑکوں پر آ گئے تو حکومت کے پاس انہیں روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا،جبکہ حکومت کی طرف سے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ مسلسل ایک ہی بات دہرائے جارہے ہیں کہ اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کی تو 25مئی سے بھی زیادہ برا حشر کریں گے۔
حکو مت اور اپوزیشن قیادت مارو یا مر جائو پر عمل پیراں مد مقابل ہیں، اب سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ آخرکہاں رکے گا،کون اس کے آگے بند باندھے گا اور کس طرح اس تصادم کو ٹالا جا سکے گا ،جو کہ تلوار بن کر پورلے نظام پر لٹک رہا ہے،عمران خان سمجھتے ہیں کہ ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد کا لانگ مارچ لے کر اسلام آباد میں داخل ہوں گے تو اْن کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے جائیں گے ،جبکہ حکومت پر اعتماد ہے کہ انہیں ریاستی طاقت سے منتشر کر دیے گی ،اس صورت حال میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ،

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے اور دنوں ہی ہاتھ ملتے رہ جائیں،اس لی بار ہا گذارش کی جاتی رہی ہے کہ سیاست میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے ،اگرعمران خان کہتے ہیں کہ اْن کے بیک ڈور رابطے جاری ہیں تو حکومت کی طرف سے غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے میں تامل کیوں ہے؟ مذاکرات ہوں گے تو قابل قبول حل بھی نکل ہی آئیں گے۔
سیاست میں بدلتے حالات کے ساتھ سیاسی حکمت عملی بدلنے کی بھی ضرورت رہتی ہے ،موجودہ حالات کا تقاضا ہے

کہ محاذآرائی کے بجائے افہام و تفہیم سے معالات سلجھائے جائیں ، ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگا تے رہنے سے دونوں کا نقصان ہی ہو گا ،جبکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کرانتخابات کا کوئی روڈ میپ بھی طے ہو سکتا ہے اورشفاف انتخابات کے لیے نیا ضابطہ ء اخلاق بھی بنایا جاسکتا ہے ،لیکن اس کے لیے ذاتی انا اور ضد کو چھوڑنا پڑے گا ،حکومت اور اپوزیشن قیادت دونوں کو ہی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو اس بے یقینی اور بے چینی سے نکالیں

کہ جس سے پوری فضاء کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔تحریک انصاف قیادت بار بارلانگ مارچ سے قبل عام انتخابات کا شیڈول طلب کررہی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پرامن اور جمہوری انداز میں معاملات طے کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے،حکومت انتخابات کے مطالبہ کو جتنی دیر تک مسترد کرتی رہے گی، اس کا سیاسی نقصان بڑھتا ہی چلا جائے گا،اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ انتخابی شیڈول کا فوری اعلان کر تے ہوئے

دیگر معاملات افہم وتفہیم سے مل بیٹھ کر حل کر لیے جائیں ، بصورت دیگر ملک میں انتشار مزید بڑھے گا،ملک میں پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت روز بروز گر رہی ہے,ملک میں سیاسی استحکام کیلئے واحد حل فوری انتخابات کا اعلان ہے حکومت کب تک ہار کے ڈر سے عام انتخابات سے بھاگتی رہے گی ،اتحادی حکومت کو آج نہیں تو کل ملک میں سیا سی استحکام کیلئے عام انتخابات کی طرف جانا ہی پڑے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں