40

ارشد شریف کی شہادت اور اجتماعی سماجی المیہ

ارشد شریف کی شہادت اور اجتماعی سماجی المیہ

مدثر اقبال بٹ/ آوازِ پنجاب

’’ناگنوں کا زہر اپنی رگوں میں بھر کے دیکھ لُوں
وہ سامنے سے ہٹے تو منظر اُدھر کا دیکھ لُوں‘‘

میں نے ہمیشہ مثبت سوچوں کو رہنما جانا۔ اسی کے دھارے میں حیات کا سفر طے کیا۔ لوگوں کے بارے میں اچھی رائے رکھی۔ نفرتوں سے محبتیں کشید کیں۔ دوستو سے بھی سدا یہی کہا۔ مایوسی‘ حسد‘ بغض‘ لالچ جیسے جذبے دیمک کی طرح آپ کو کھا جائیں گے۔ آپ اسی وقت سماج کو کچھ بہتر دے سکتے ہیں۔ جب سوچیں مثبت ہوں‘ آلودہ نہ ہوں‘ فرسودہ نہ ہوں۔جانتے ہیں آپ؟ میں نے ہمیشہ دوسروں کو مثبت سوچنے کی تلقین کی‘ یقین کے ساتھ‘ وثوق کے ساتھ۔ لیکن کچھ دنوں سے عجیب سی کیفیت ہے۔ قنوطیت کا پہر ہے۔

ہاسیت کی لہر ہے۔ یوں احساس ہوتا ہے‘ مجھ جیسے ہر انساں کی تلقین بے کار ہے‘ سبھی کوششیں رائیگاں ہیں‘ مشق بے ثمر ہے۔ باخبر بھی ہے تو بے خبر ہے۔ جو لوگ محبتیں بانٹ کر سماج کو خوشحال بنا سکتے ہیں‘ وہی لالچ و نفرت کی کاشت میں جتے ہیں۔ وہ فصلیں بو رہے ہیں جو ہمارے بعد بھی کئی فصلیں کاٹتی رہیں گی

اور ان کے بیج پھر بھی ختم نہ ہوں گے۔ہمارے حسیں دیس کو‘ پیار کے بھیس کو‘ جانے کس ظالم کی نظر لگ گئی ہے۔ ہر آنے والا دن دکھوں کا پیامبر ہے۔ یوں لگتا ہے‘ سورج ہے‘ دن روشن ہے لیکن ہمارے مقدروں کے اندھیرے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ جیسے ہمارے نصیبوں کے سورج کو گرہن لگ گیا ہے۔ جو مستقبل ہے‘ پائیدار ایسا کہ جاتا نہیں۔ سورج روز نکلتا ہے‘ نیا دن چڑھتا ہے لیکن رات کی سیاہی کا زہر نہیں

جاتا‘قہر نہیں جاتا۔ کوئی سکھ سندیسہ سنے جیسے صدیاں بیت گئیں۔ہر بات سے جھلکتی اور چھلکتی دکھوں کی باس‘ ہماری قوم کے سینے جلا کر نفسیاتی مریض بنا چکی ہے۔ سبھی دکھی ہیں۔ سائیکو ہیں۔ معاشرہ اس قدر زہریلا ہو چکا ہے۔ سبھی اپنی اپنی منفی سوچوں کے اسیر ہیں۔ کوئی بہتر بات سوچنے کی سعی بھی کریں تو اس میں سے بھی نفرتوں کا زہر پھوٹتا ہے۔ ہم تو وہ ہیں جو بے حسی کے ماحول میں‘ لالچوں کا زہر پالتے ہیں۔

ہم تو جیسے من حیث القوم دولے شاہ کے چوہے بن چکے ہیں۔ لوہے کی ٹوپیاں اوڑھ لی ہیں۔ فیصلہ کر چکے ہیں۔ ہم نے تو وہی دیکھنا ہے جو ہمارے لاشعور کے چوکھٹے میں فٹ کر دیا گیا ہے۔
ہم اپنی سوچ اور نظریے کے سامنے‘ نہ تو کسی دلیل کو مانتے ہیں‘ نہ ہی کوئی عقل و شعور کے رستے ہمیں قائل کر سکتا ہے۔

یوں لگتا ہے ہم اپنے اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ مفاد‘ لالچ اور نفرت کے چھوٹے بڑے بت تراشتے ہیں اور پھر انہیں پوجنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں سوجھتا۔

مزدور باپ رات کو بھی گھر نہ آ سکے
قصے سنا کے مائوں نے بچے سلا دئیے

کچھ ایسا ہی دکھ ہے جو ارشد شریف کے بچھڑنے سے ہوا۔ واضح کرتا چلوں‘ میں سوشل میڈیا کا شناور نہیں۔ اس کے باوجود اپنی قوم کے اجتماعی شعور کو اسی آئینے میں دیکھتا رہتا ہوں۔ پچھلے دنوں جب ارشد شریف کی شہادت ہوئی تو دل جیسے بجھ کے رہ گیا۔ دکھ میں گھر گیا۔ میں اس خوبصورت نوجوان سے کبھی نہیں ملا۔ بس کبھی کبھار اس کا پروگرام ہی دیکھا جو اکثر چینل بدلنے سے روک دیتا تھا۔

ارشد شریف کا بات کرنے کا انداز انوکھا تھا۔ دلیل کے ذریعے موقف پیش کرتا۔ یہی ادا اسے دوسرے اینکروں سے جدا کرتی رہی۔ اس نے اپی الگ شناخت بنائی۔ ثابت کیا کہ آج کے دور میں بھی کوئی صحافی محنت کرے تو سماج پر اثرانداز ضرور ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا ہماری قوم اپنی سوچ کے برعکس بات سننے کی بھی روادار نہیں‘

تیار نہیں۔ سو‘ پھر یہی ہوا‘ ارشد شریف کے ساتھ۔ پہلے اس کا پروگرام بند کروایا گیا۔ پھر نوکری سے نکالا گیا۔ بعدازاں ہوا یوں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس پر درجن سے زائد مقدمات بنا دئیے گئے۔
ارشد شریف کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس وطن سے دور جانے کیلئے کہا گیا جس کی حفاظت کیلئے اس کے باپ نے اپنی جوانی نذر کی۔ جواں بھائی نے جام شہادت نوش کیا۔ ارشد شریف تو شہیدوں کا وارث تھا۔ مٹی سے پیار اُسے وراثت میں ملا تھا۔ وطن سے عشق کا خمار تو لہو میں تھا۔ خواہ اس نے وردی نہیں پہنی لیکن وہ اپنے فوجی بھائیوں کے ساتھ سپاہی بن کر ہر محاذ پر ڈٹا رہا۔ ایسا کونسا مورچہ تھا

جو ہم نے نہیں دیکھا۔ جہاں وہ اپنی ریاست کی لڑائی لڑتا رہا۔ اس نے ہمیشہ اپنی ریاست کی بات کی‘ مصلحت کی بات نہ کی۔ وہ اس ریاست کو خرابیوں سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھا چکا تھا۔ عزم کر چکا تھا کہ وہ سب کچھ بدل دے گا۔ عہد کیا تھا‘ سچ کا ساتھ دے گا لیکن ہوا کیا؟ اس محب الوطنی کے باوجود اس پر اس وطن کی زمین تنگ کردی گئی۔ اسے مجبور کیا گیا کہ وہ پاکستان چھوڑ دے۔ مٹی کی محبت سے منہ موڑ لے۔ پھر وہ جدا ہوا‘

اپنی سرزمین سے‘ وطن حسیں سے اور قلم قبیلے کا یہ سپاہی کبھی کسی ملک اور کبھی کسی اور سرزمین پر دربدر ہوتا رہا‘ اپنے نظریے کی قیمت چکاتا رہا۔ انت یوں ہوا کینیا کے شہر نیروبی میں یہ سفر اس کی شہادت پہ ختم ہوا۔ اک نیا اتہاس رقم ہوا۔ارشد شریف نے جانا ہی تھا‘ چلا گیا۔ اک نہ ایک دن سب نے جانا ہے

لیکن اس کے جانے کا دکھ اپنی جگہ۔ لیکن اس سے بڑا دکھ اپنے سماج کی بے حسی کا ہے۔ اذیت پرستی کا ہے۔ کدورتوں‘ مصلحتوں کے اس نفی پن کا ہے جو ہر شے‘ ہر واقعے‘ ہر المیے کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتا ہے۔میں سوشل میڈیا کے آئینے میں اپنے سماج کی مکروہ شکل دیکھ کر اپنے آپ سے شرما رہا ہوں۔

دیکھ رہا ہوں کہ ہم نے اپنے سماج کو کس قدر بے رحم اور ظالم بنا دیا ہے۔ اذیت پرست بنا دیا ہے۔ عام آدمی کی بات تو ایک طرف رہنے دیں۔ بی بی مریم نواز کا ٹویٹ ہی دیکھ لیں کہ وہ کیسی سوچ رکھتی ہیں۔ اتنی خوبصورت عورت کتنی زہریلی سوچوں کی مالک ہے۔ ایک جواں بیٹے کی ماں‘ کیسے کسی اور کے بیٹے کی موت پر ایسا اظہار کر سکتی ہے؟ ایسے سانحے پر کلیجہ نہیں پھٹ جاتا؟ لیکن مریم بی بی کی سفاکی تو کہیں آگے کی بات ہے۔
بات صرف یہیں پہ نہیں رکی۔ بات اور بھی آگے بڑھی۔ مریم بی بی کے بعد تو ان کے چاہنے والوں نے انتہا کردی۔ کئی ممبران اسمبلی‘ کئی جمہوریت کے مامے چاچے‘ کئی انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن ایسے بھی دکھائی دئیے‘ جن کے نقاب اُتر گئے۔ کتنے ہی ظالم‘ اذیت پرست‘ سگ گزیدہ وحشت زدہ سوشل میڈیا کے آئینے میں وہ گدھ دکھائی دئیے‘ جو مردوں کو نوچتے ہیں اور یہ سب کوئی اجنبی نہیں‘ شناسا ہیں

۔ یہ وہ ہیں جو ہماری ریاست کو شعور و آگہی دینے کے دعوے دار ہیں۔ سماج کے وہ ٹھیکے دار ہیں جنہوں نے سماج کو سیدھے راستے پہ ڈالنا ہے۔ المیہ تو یہ ہے‘ یہ بدبخت اتنے مکروہ اور غلیظ ہیں‘ اتنے گھٹیا ہیں کہ بے شرمی‘ بے حیائی اور بے غیرتی جیسے الفاظ تو بہت چھوٹے پڑ جاتے ہیں‘ ان کی خباثت سروقد ہے۔
بات ارشد شریف کی شہادت سے بڑھ کر ہمارے اجتماعی سماجی المیے کی ہے۔ ہم وہ کوتاہ قد ہیں‘ کبڑی بصیرت والے ہیں کہ ایک میت کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کیلئے برتنے سے باز نہیں آتے۔ سیاسی فوائد تو چھوڑیں‘ ہمارے لیے تو ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے اندر کی غلاظت انسانی میت پر بھی سیاسی طنز کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔

تو یہ کیسے مان لیں کہ ہم بھی انسان ہیں۔ ایسے انسان ہیں تو حیوان کیا ہیں؟ سچ پوچھیں تو وہ بظاہر بڑے لوگ‘ بہت ہی چھوٹے ہیں۔ کمینے اور گھٹیا لگتے ہیں جو اپنے دل کے اندر محبتوں کی جگہ کرودھ اور نفرت پالتے ہیں اور یہ زہر مسلسل معاشرے کی رگوں میں اُتارتے ہیں۔رب سچا سائیں سوہنا ہمارے سماج کو ایسے زہریلے لوگوں سے‘ سرمنڈھی گرجوں سے بچائے۔ ان اذیت پرستوں کی منفی سوچوں‘ بدکرداریوں سے محفوظ رکھے۔
وحشیانہ دور کی ہے یہ نشانی آخری
جس کے ہاتھوں خطرے میں ہے‘ امن عالم آج بھی
پنجاب زندہ باد‘ پاکستان پائندہ باد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں