'' تاب دان اور نوید ملک '' 57

” تاب دان اور نوید ملک ”

” تاب دان اور نوید ملک ”

تحریر: قیصر عمران سیالوی

چند روز پہلے محترم نوید ملک صاحب سے چوک اعظم ضلع لیّہ میں محترم شہزاد افق کی شادی و مشاعرہ کی تقریب میں ملاقات ہوئی۔اس سے پہلے بھی ہم ادبی حوالے سے متعدد بار مل چکے تھے۔ جناب نے مجھے اِس یادگار موقع پر اپنی پُرخلوص محبتوں کے ساتھ اپنی نئی کتاب ” تاب دان ” تحفے میں پیش کی۔ایسے عظیم شاعر کی کتاب کا تحفے میں ملنا میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔
شادی کی تقریبات کے بعد جب سفرِ مراجعت کا آد ہوا تو میں نے سوچا کہ آٹھ سے دس گھنٹے کا تنہا اور طویل سفر ہے کیوں نہ ” تاب دان ” کا مطالعہ کیا جائے۔تو بس پھر اسی آن ” تاب دان ” کا مطالعہ شروع کر دیا۔
حمد شریف,نعت شریف,سلام بحضور امام حسین رضی اللہ عنہ کے خوبصورت اشعار جیسے جیسے میں پڑھتا گیا تو میرے دل و دماغ میں سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں جھومنے لگیں۔حمد شریف سے دو اشعار احباب ملاحظہ فرمائیں

ہلا کے سر جو کہا ایک بار,اللہ ہو
صدائیں آنے لگیں بے شمار,اللہ ہو

نگاہ پڑتی ہے میری جب ان مناظر پر
زباں پہ آتا ہے بے اختیار,اللہ ہو

نعت شریف سے دو اشعار احباب ملاحظہ فرمائیں

وُہ آئے آمنہ بی بی کے گھر چراغ جلے
اُجالے مٹنے لگے تھے مگر چراغ جلے

ہر اِک ستارے سے اُجلے کئی ستارے نوید
ہر اک چراغ کے زیرِ اثر چراغ جلے

سلام بحضور امام حسین سے دو اشعار احباب ملاحظہ فرمائیں

سودا کیا جو عشق میں سستا نہیں کیا
گھر بار لٹ گیا تو, تقاضا نہیں کیا

کوفے کے بعد ایسی ہوا دل میں چل پڑی
ہم نے کسی بھی خط پہ بھروسا نہیں کیا

?عقیدتوں کے نہایت ہی خوبصورت اور روح پرور اشعار پڑھنے کے بعد جیسے ہی نوید ملک صاحب کی پہلی غزل پڑھی جو کہ اکتیس اشعار پر مشتمل تھی وہ کہتے ہیں ناں کہ پانچ یا سات اشعار سے زائد اشعار کی غزل قاری کو خلشِ پیہم میں مبتلا کردیتی ہے لیکن برعکس اس غزل کا ہر اِک شعر اتنا خوبصورت اور پختہ ہے کہ قاری اس کو پڑھتے پڑھتے ایک الگ تھلگ سی دنیا میں چلا جاتا ہے۔
غزل سے دو تین اشعار

مجھے لگتا ہے اُسے ماں نے دعائیں دی ہیں
جس کا ہر لفظ خزانے سے بڑا ہوتا ہے

بیٹیاں سب کی نگاہوں میں ہیں تاروں جیسی
یہ جو بیٹا ہے کمانے سے بڑا ہوتا ہے

ننھے کاندھوں پہ کتابوں کا نہ یوں بوجھ بڑھا
بستہ خوابوں کو جگانے سے بڑا ہوتا ہے

چلتے ہیں ” تاب دان ” کیصفحہ نمبر 53 پہ جہاں اس کتاب کے تخلیق کار نے بہت ہی نفیس مضمون اور قافیہ کے ساتھ ساتھ ردیف ” پڑا تو پھر ” کو کتنی خوبصورتی سے نبھایا اس ردیف نے مجھے اپنی جانب یوں کھینچا جس طرح ایک مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے
احباب اشعار ملاحظہ فرمائیں

دریا کو شعلگی سے سجانا پڑا تو پھر?
آنکھوں پہ دل کی آگ کو لانا پڑا تو پھر?

گھر بار کی فضا میں,اُڑانیں نہ ضبط کر
اِن بیٹیوں کو رزق کمانا پڑا تو پھر?

غزلیں مشاعَروں میں پڑھو تم خرید کر
لیکن یہ فن کسی کو سکھانا پڑا تو پھر?
” تاب دان ” کے صفحہ نمبر 64 پہ محترم نوید ملک صاحب عصرِ حاضر کی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے مستقبل کے بارے کیا خوبصورت عکاسی کرتے ہیں اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

روند ڈالیں گے یہاں لوگ صداؤں کی طرح
شہر کا کوئی مورخ ہی سنبھالے گا ہمیں

ہم نے بیعت کے تقاضوں کا جو پرچار کیا
وقت نیزوں پہ کسی روز اُچھالے گا ہمیں

وہ کہتے ہیں ناں کہ ماں باپ کی طرف صرف ایک دفعہ مسکرا کر دیکھنے سے حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے تو پھر والدین کی خدمت کرنے سے نجانے کتنے حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہوگا۔صفحہ نمبر 65 پہ ماں کی خدمت پر نوید ملک صاحب کا ایک انتہائی خوبصورت شعر احباب ملاحظہ فرمائیں۔

ماں کی خدمت کر رہا تھا لوگ تھے جب عرس پر
میری چھت پر سب کبوتر آ گئے دربار سے

”تاب دان ” کے صفحہ نمبر 75 پہ مضمون, قافیہ کے ساتھ ساتھ چراغ ردیف کو جتنی خوبصورتی سے نبھایا گیا ہے بیشک یہ نوید ملک صاحب جیسے سینئر شاعر ہی کا خاصہ ہے۔احباب اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

خواہشیں جس کی اندھیروں نے بہت روندی ہوں
اس کے ہونٹوں سے بس اک لفظ نکلتا ہے چراغ

جتنے سکے تھے انھیں راہ میں پھینک آؤ میاں
یہ فقیروں کا نگر ہے یہاں چلتا ہے چراغ

جب زمانے کی ہتھیلی سے اُجالے مٹ جائیں
یہ روایت ہے ازل سے کہ نکلتا ہے چراغ

اقبال,غالب,میر اور نجانے کتنے سینئرز شعَرا کا میں پیرو رہا جنہوں نے اپنی شاعری میں عربی اردو اور فارسی کے زبانوں کے سندرتا الفاظ استعمال کئے جو اب عصرِ حاضر کے شعَرا کرام بھی اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں ” تاب دان ” کے صفحہ نمبر 102 پہ جہاں پوری غزل میں اردو کے ساتھ ساتھ پوٹھوہاری ردیف ” یرا” کو بھی کتنی خوبصورتی سے برتا گیا ہے احباب اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

چھوڑو اُلجھنا سب سے کنارہ کرو ”یرا”
دنیا ہے چار دن کی گزارا کرو ”یرا”

دریا کا سینہ چاک کروں یا کہ دشت کا
میں ہوں تمہارے ساتھ اشارہ کرو ” یرا ”

تم پر تمہارے عکس ابھی تک نہیں کھلے
اس آئنے سے بات دوبارہ کرو ” یرا ”

اس مکمل کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ محترم نوید ملک صاحب کا شمار عصرِ حاضر کے سینئرز شعراء میں ہوتا ہے۔اور یہ بات بھی یہاں کرنا ضروری سمجھوں گا کہ ” تاب دان ” کا کوئی بھی ایک شعر ایسا نہیں ہے جو غزل کو مکمل کرنے کے لئے ”بھرتی” کے طور پہ شامل کیا گیا ہو۔” تاب دان ” کا ہر شعر پڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہی شعر حاصلِ غزل ہے لیکن پھر بھی جو اشعار مجھے زیادہ پسند آئیں وہ اشعار احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کرونگا

آیا ہوں اپنے جسم پہ دنیا کو اوڑھ کر
مرضی ہے آپ کی اِسے جتنا اُتار دیں

نوید اب آہٹیں درپیش ہیں کچھ
مری سانسوں کو آنا, آگیا ہے

وہ چاہتا ہے کہ لڑتے ہوئے میں لہروں سے
کنارے تک اُسے لے جاؤں اور بچوں بھی نہیں

نہ سمجھاؤ,مجھے یوں ہیر اور رانجھے کا چکر
وہی ہے نا! جو برسوں سے ہمارا چل رہا ہے

کچھ ایسے ہوا ہجر کی لذت سے میں سرشار
تصویر بھی اب اس کی میں دیکھا نہیں کرتا

جھگڑا ہوا ہے آج ستاروں کا چاند سے
بولا ہے کتنی بار,نہ چمکا کریں حضور

اِس پیڑ کا مٹی سے نہیں کوئی تعلق
ہر شاخ پہ آئی ہے لچک اور طرف سے

راستے چپ ہیں سفر بولتے ہیں
کئی امکان کے در بولتے ہیں

پھول کرتے ہیں صبا سے شکوے
آندھی آئے تو شجر بولتے ہیں

اب فرشتوں سے گفتگو میری
ماں سے آنسو چھپا کے ہوتی ہے

پہلے بھی صحن میں پڑتی تھیں دراڑیں اکثر
اب مکاں ہو گیا مسمار کوئی بات نہیں۔

”تاب دان ” کا ہر خوبصورت شعر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ کتاب ادبی حلقوں میں اور مستقبل میں نہ صرف اپنی شناخت بنائے گی بلکہ بغیر بیساکھیوں کے اپنا ایک خاص مقام پیدا کرے گی۔
احباب جس کتاب پر آفتاب زیدی (نیو جرسی امریکہ) قمربدر پوری (نئی دہلی انڈیا)اور ملکِ پاکستان کے نامور شاعر استاد الشعرا محترم امجد اسلام امجد صاحب جیسی شخصیات کی رائے موجود ہو وہاں اُس کتاب پر میرے جیسے ایک طفلِ مکتب کی رائے یوں ہے جیسے کسی سینئر کے سامنے ایک نرسری کلاس کے بچے جیسی۔
آخر میں محترم نوید ملک صاحب کو نہ صرف خوبصورت شعری مجموعہ تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں بلکہ اُن کے مذید ادبی سفر کی کامرانی کے لئے اپنے اِس دعائیہ شعر سے اللہ کے حضور دعاگو ہوں

پیارے بھائی دعا یہ قیصر کرے ہے دل سے
ہمیشہ تجھ کو قدم قدم پر ملے ہے شاہی

والسلام: قیصر عمران سیالوی تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا پنجاب پاکستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں