عوامی لاتعلقی اچھا شگون نہیں !
مسلح افواج کے نئے سپہ سالار کی تقرری میں چند دن باقی رہ گئے ہیں،پاک آرمی سے سبکدوش ہونے والے سربراہ اپنے الوداعی دورے شروع کر چکے ہیں،لیکن ملک بھرمیں افواہوں کا ایک ایساطوفان برپا ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاہے ،آرمی چیف کی تعیناتی بظاہر ایک سیدھا سادہ انتظامی عمل ہے
،جوکہ گزشتہ کئی سال سے روایات کے مطابق سرانجام دیا جاتا رہاہے،لیکن اس مرتبہ تمام سیاسی قیادت کی جانب سے اسے زیر بحث لایاجارہا ہے ،وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری پر ایک ہیجان برپا ہے ، پی ٹی آئی قیادت کا کہناہے کہ انہیں کسی پر کوئی اعتراض نہیں،لیکن تعیناتی میرٹ پر ہو نی چاہئے ، جبکہ بلاول بھٹوں زرداری نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر غیر ضروری سیاست ہورہی ہے،
آرمی چیف کی تعیناتی ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے، اس حوالے سے سیاسی قیادت کو بیانات دیتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے، انھیں بھولنا نہیں چاہیے کہ بہت سے دیگر ممالک بڑی باریک بینی سے معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان غیر سنجیدہ بیانات کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔
یہ امر انتہائی قابل غور ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے آئین میں واضح طریقہ کار موجود ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی صفوں میں بے چینی کیسی ہے،پی ٹی آئی قیادت مقبولیت کی معراج پر ہیں، وہ عوامی مسائل پر بات کرنے کے بجائے مسلح افواج کو موضوع بحث کیوں بنائے ہوئے ہیں؟میاں شہباز شریف آئینی اور قانونی طور پر اختیار رکھتے ہوئے بار بار لندن یاترا کے باوجود ابھی تک فیصلہ کیوں نہیں کر پا رہے؟
حکومتی اتحادی گومگو کا کیوں شکار ہیں؟ پیپلز پارٹی چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟اس کا مطلب کچھ تو دال میں کا لا ہے کہ جس کی پردہ داری ہے ،اس کے باعث ہی چارسو ہیجان برپا ہورہا ہے۔یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے ،
اس سے قبل بھی اہم تقرری کو موضوع سخن بنایا جاتا رہا ہے ،تاہم اس بار جس انداز سے گلی کوچوں کی بیٹھک کا موضوع اور ملکی سیاست کا محور بنایا گیا ،قابل مذمت ہے،اس ضمن میں حکومت مود الزام پی ٹی آئی کو ٹھراتی ہے ،جبکہ پی ٹی آئی ساری ذمہ داری حکومت پر ڈالتی ہے ، حالانکہ دونوں ہی برابر کی شریک کار ہیں ،حکو مت نو ٹیفکیشن کے اجرا مین غیر معمولی تا خیر کا مظاہرہ کررہی ہے ،
اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی تنقید کا نشانہ بنارہی ہے ،تاہم وزیر دفاع کی تصدیق کے بعد کہ پراسیس شروع ہو گیا ہے ،اُمید کی جاتی ہے کہ ایک دو روز میں تعیناتی کا عمل مکمل ہو جائے گا اور بیان بازی سے افواہوں کا جو طوفان اٹھا ہواہے ،اس کی گرد جلد ہی بیٹھنا شروع ہو جائے گی ۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اہم تعیناتی کے بجائے سیاسی عدم استحکام اور بد حال معیشت ہے ، ایک طرف ملک میں دن بدن سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے تو دوسری جانب ملک ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے اور اتحادی حکومت اہم تعیناتی کے چکر میں سب اچھا ہے کی بانسری بجائے جارہی ہے
،وزر خزانہ اسحاق ڈار چھوٹے دعوائے اور دلاسے دینے میں لگے ہیں ،آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہورہے ہیں نہ کوئی امداد ملنے کی امکانات نظر آرہے ہیں ،آئندہ ماہ ایک اب ڈالر کی ادائیگیاں واجب الا داہیں اور ملکی خزانے کی حالت یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق فارن ایکسچینج کے ریزروز آٹھ ارب ڈالر سے بھی کم سطح پر آچکے ہیں ،ملک میں جب آئے روز نئے سیاسی طوفان اٹھ رہے ہوں تو معیشت کا استحکام کیو نکر حاصل ہو پائے گا ،لیکن اتحادی حکومت کو سیاسی عدم استحکا اور بدحال معیشت کی فکر کرنے کے بجائے اہم تعیناتی کی فکر کھائے جارہی ہے ۔
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے جتنا زور آرمی چیف کی تقرری پر لگارہے ہیں، اگر اس سے کچھ کم زور ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی بحالی پر لگایا ہوتا تو نتائج بالکل مختلف ہوسکتے تھے ،لیکن سیاسی قیادت نے تو قومی مفاد پر زاتی مفادات کو ہی تر جیح دی ہے ،اس لیے ملک کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں ،