40

بے لگام جانور مانند ہم بھارتیہ مسلمان

بے لگام جانور مانند ہم بھارتیہ مسلمان

نقاش نائطی
۔ +966562677707

کیا اے آئی ایم آئی نے گجرات بی جے پی شاندار جیت میں اہم رول ادا کیا ہے؟ یقینا مجلس پر بی جے ہی بی ٹیم ہونے کا یہ الزام وقت وقت سے لگتا رہا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ، باوجود سنگھیوں کے خلاف اتنی زیر افشانی کے، مجلس پر بی جی پی کی خاموشی والی کرم فرمائیاں ہیں۔ بیشک بعض انتخابی موقعوں میں، مجلس کی حصہ داری سے یقینا بی جے پی کو فائیدہ ہوتا رہا ہے، لیکن اس کے لئے صوم وصلواہ کے پابند تہجد گزار باشرح اور سب سے بڑھ کر،معشیتی طور،خود کفیل اسدالدین اویسی جیسوں سے،اس پیران حالی والی عمر میں، کم از کم ایسی توقعات رکھی نہیں جاسکتی ہیں؟ ہمیں نہیں لگتا اسدالدین بھائی صرف دنیوی فائیدے کے لئے، اپنی عاقبت یوں برباد کرسکتے ہیں

ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ و تفکر و انسانیت کی خدمات کے جذبات ہوتے ہیں،ہم مسلمانوں میں، سیاسی آگہی پیدا کرنے کی کوشش بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔ حالیہ گجرات انتخابات میں، مجلس کو ملے ووٹوں سے کانگریس کو بالکل ہی کسی بھی علاقے میں کوئی بھی فرق نہیں پڑا ہے، یہاں تک کہ 3 نمبر علاقہ بجھ کے مجلس امیدوار شکیل احمد کو ملے 31،249 ووٹ اگر پورے کے پورے بھی کانگریس کو ملے 36،495 ووٹوں میں شامل کردئیے جائیں، تب بھی جملہ ووٹ 67،744 بنتے ، بی جے پی کو ملے 95،746 ووٹوں کے مقابلہ 29 ہزار ووٹوں سے کانگرئس ہار چکی ہوتی۔

ہاں البتہ “آپ” پارٹی نے یقینا” کانگریس کو تیس ایک سیٹوں پر نقصان پہنچایا ہے یہاں سب سے اہم بی جے پی کو ملے 52 فیصد ووٹ ہیں۔ یہ اس لئے کہ کانگرئس، مجلس، عام آدمی پارٹی سپھا، بھسپا، آزاد سب ووٹ بھی ملک کر بی جے پی کو شکست نہیں دے سکتے تھے، ہاں البتہ سیٹیں کچھ کم ہوتیں لیکن حکومت بی جے پی کی ہی بنتی۔ ایسے پس منظر میں، قابل غور بات یہ ہے کہ آرایس ایس بی جے پی مودی امیت شاہ کے، ھندو مسلم منافرتی ماحول پیدا کرنے کی وجہ سے، یہ تفکر عام گجراتی ھندو بھائیوں میں، کیا

واقعی گھر کر گیا ہے کہ معشیتی طور گجرات کتنا بھی تباہ و برباد نہ ہو جائے، مہنگائی کتنی بھی بڑھ نہ جائے، لیکن ہم مسلمانوں کے ڈر میں گجراتیوں نےمودی جی کو کھل کر ووٹ دیا ہے یا یہ صرف ایک سازشی سوچ ہے بھارت واسیوں کو بے وقوف بنا ای وی ایم چھیڑ چھاڑ کچھ فیصد کانگریس کے ووٹ کاٹ، بی جے پی کے کھاتے میں ڈال 52% ووٹ تناسب لے جاتے ہوئے، مودی جی کو لاتسخیر ثابت کرتے ہوئے، 2024 عام انتخاب اثر انداز کرانے کی یہ کوئی سوچی سمجھی سازش ہے؟

جو شخص اپنے زمام اقتدار کے ابتدائی دنوں میں،ریزرو بنک گورنر تک کو بدلتے ہوئے،اپنےمعشیتی سرجیکل اسٹرائک سے اچانک نوٹ بندی کا اعلان کر، ہزاروں کروڑ کا اسکیم کرتے ہوئے، کانگریس سپھا بھسپا کے کالے دھن پر روک لگا، تقریبا” ہارے ہوئے یوپی انتخاب کو، جیت میں بدلتے ہوئے، 130 کروڑ ملکی عوام کو بے وقوف بناسکتا ہے۔ قاعدے قانون کو بالائے طاق رکھ، الیکش کمشنر کی تقرری کرسکتا ہے،

بھارت کی تاریخ میں پہلی دفعہ پریس کانفرنس کر، مودی جی کی جارحیت کے خلاف عوامی عدالت کا دروازہ کھٹکٹانے والے سپریم کورٹ ججز کو، اپنے اشاروں پر ناچنے مجبور کرتے ہوئے، نیم قانون کو بالائے رکھے، تمام تر ملکیتی کاغذات والی 500 سالہ بابری مسجد کو رام مندر تعمیر کے لئے، قاتل بابری مسجد ٹولے ہی کے سپرد کرواسکتا ہے، دیش کی حفاظت پر معمور 40 بی ایس ایف جوانوں کو اپنے مفاد کے لئے قربان کروا، مسلم آتنگ واد کا رونا روتے ہوئے، پانچ ریاستی انتخاب جیت سکتا ہے

۔ کرناٹک ،گوا، منی پور اور مدھیہ پردیش عوامی مینڈیٹ ہارنے کے باوجود، کانگرئس کے چنے ہوئے،ایم ایل ایز کو خرید کر، زبردستی اپنی حکومت وہاں وہاں قائم کرسکتا ہے، اسکے لئے، ای وی ایم چھیڑ چھاڑ گجرات انتخاب جیتنا کونسی بڑی بات ہے؟ کیا گجراتی ھندو انسان نہیں ہیں؟ کیا انہیں موری پل حادثہ میں مرے 140 گجراتیوں کی جان کی قیمت کا احساس نہیں ہے؟ یا موری پل حادثہ کے دوسرے دن مہان مودی جی کے موروی ہاسپٹل فوٹو شوٹ برباد کئے کروڑوں روپیوں کی انہیں فکر نہیں ہے؟

2002 گجرات فساد میں ادھ مرے کر چھوڑے 15% گجراتی مسلمانوں سے، 85% گجراتی ھندو کیا اتنے ڈرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی معشیتی تباہی و بربادی کی فکر کئے بناہی، صرف آدھ مرے گجراتی مسلمانوں کے ڈر سے، مودی جی کو اتنی بھاری اکثریت سے جیت دلائی ہے؟ کیا دیش کی آزاد کہے جانے والی بکاؤ میڈیا نے، اعظم گڑھ ھندو اکثریتی حلقوں کی 70 سے 80 فیصد ووٹنگ کے مقابلے، مسلم اکثریتی اکثر حلقوں کی پانچ تا سات آٹھ فیصد پولنگ کے بارے میں بھی بھارتیہ عوام کو کچھ بتایا بھی ہے؟

اعظم گڑھ میں صاف ستھرے غیرمتنازع انتخاب کروانے کی ذمہ داری بھی، اسی الیکشن کمیشن نے کیا پوری نہیں کی ہے؟جس نے گجرات انتخاب میں بی جے پی کو 52% ووٹ دلوانے میں، مدد و نصرت کی ہے؟ یہ تو ہم عام بھارت واسیوں کو انکے 52% ووٹ اکثریتی سے ریکارڈ ساز نتیجہ قبول کرنے کے لئے، کسی بھی صورت مودی جی کو ووٹ دینے والی بات گودی میڈیا معرفت ہی ہم عام بھارت واسیوں کے دل و دماغ میں بٹھائی جارہی ہے۔اور یہاں تک کہ گجرات مسلم اکثریتی حلقوں میں بھی مختلف سیاسی پارٹیوں میں بٹے ووٹ بھی اکٹھے ہوئے بھی بی جے پی کوشکست دینے لائق نہیں بنتے ہیں

نہیں یہ سب بالکل نہیں۔ دراصل یہ سب گودی میڈیا ہے جوہم بھارت واسیوں کے دل و دماغ میں، وہی کچھ بھرتی ہے جو آرایس ایس تھنک ٹینک، انہیں 24/7 مکرر نشریات سے عام بھارت واسیوں کے اذہان کو پراگندہ کرنے کے لئے حکم دیا کرتے ہیں۔2016 نوٹ بندی بے راہ روی اور الیکشن کمیشن تقرری اقدار کی پامالی پر دیش کے سپریم کورٹ میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔دیش کے سپریم کورٹ کے وکیل بھانو پرتاب سابقہ کئی سالوں سے، ای وی ایم چھیڑ چھاڑ انتخابی نتائج اثر انداز ہونے پر، سپریم کورٹ میں، کیس لڑ رہے ہیں

۔ اس ای وی ایم طرز انتخاب کے خلاف دیش کی تمام سیکیولر سیاسی پارٹیاں،سب مل کرسپریم کورٹ میں، کیس لڑیں تو یقینا بھارت واسیوں کو اس اندھیر نگری چوہٹ راج ای وی ایم چھیڑ چھاڑ سے، انتخاب جیتنے والی سنگھی بی جے پی پارٹی سےمکتی دلا سکتی ہے۔عالم کے تقریبا تمام ترقی پذیر ممالک، جب اس ای وی ایم طرز انتخاب سے، توبہ کرچکے ہیں اور 2014 سے پہلے والے کانگریس راج میں یہی بی جے پی، اسی ای وی ایم کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمے لڑاکرتی تھی،اب ای وی ایم چھوڑ بیلٹ پیپر طرز انتخاب سے کیوں بھاگ رہی ہے؟

سپریم کورٹ وکیل بھانویں پرتاب گجرات ای وی ایم جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کے لئے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ موت و رزق معاملے میں، ہم اپنے مالک دوجہاں پر یقین کامل رکھنے والے مسلمان، اپنے اللہ کے قہر وعذاب کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈرا کرتے ہیں۔ 27 سالہ بی جے پی راج اور وہ بھی بعد گجرات قتل عام کسی بھی مسلم منسٹر سے ماورا 12 سالہ مودی راج سمیت 20 سالہ گجرات راجیہ اور مسلم اکثریتی یوپی میں بھی منسٹری میں مسلم نمائندگی کے بغیر اب تک صفحہ ہستی سے ہم مسلمانوں کو ختم نہیں کیا جاسکا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ختم کئے جاسکتے ہیں ۔

ایسے میں جس ملک میں آدیواسی دلتوں کے مفاد میں لڑنے والے، ان کی ذات برادری کے مضبوط لیڈران سے انہیں مستفید ہوئے دیکھنے کے باوجود، ہم دیش کے پانچویں حصہ کے تیس کروڑ مسلمان، بعد آزادی ان ستر سالوں میں اپنا کوئی مضبوط سیاسی لیڈر چننے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے ہیں؟

اویسی کو بھلے ہی، بی جے پی بی ٹیم کہا جاتا پو لیکن وہ اور انکے مہارشٹرا والے شیر امتیاز بھائی مسلم مفاد میں، جس طرح سے دیش کے ایوانوں میں بے خوف گرجتے ہوئے، ہم بھارت واسی مسلمانوں میں عزت و احترام سے جینے کی آس و امید دلا جاتے ہیں کیا دلت آدیواسی پچھڑی جاتی ذات برادریوں کی طرح دیش کے ہم مسلمان بھی، جہاں جہاں مجلس کے امیدوار کھڑے ہوں ان کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے پائے جائیں

اور دیکھیں کیسے کانگرئس بھاسپا سپھا جنتا دل یا آرجے ڈی جیسے نام نہاد سیکیولر پارٹیاں بھی، مجلس کے ساتھ انتخابی اتحاد کرتے ہوئے، مسلم ووٹوں کی اہمیت کو دوبالا کرتے ہیں دیکھا جاسکتا ہے۔بے لگام جانور مانند ہانکھے جانے والے جانور جیسے، آبادی کے پانچویں حصہ والے کم و بیش ہم 30 کروڑ بھارتیہ مسلمان، بغیر کسی خاص سیاسی لیڈر کے مختلف نام نہاد سیکیولرپارٹیوں کے طرف آس امید لگائے،

کبھی ادھر تو، کبھی ادھر، ہچکولے کھائے، بے ضرر، بےوقعت کئے چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ فی زمانہ منافرتی پس منظر میں، یقینا ہم مسلمان اپنی سیاسی پارٹی بنائے، انتخاب جیت حکومت بنا نہیں سکتے ہیں۔ لیکن لیکن نام نہاد سیاسی پارٹیوں میں بٹنے کے بجائے، اپنے میں سے ہی اپنے مفاد میں لڑنے والے مجلس اتحاد المسلمین ہی کو، اپنی سیاسی پارٹی تسلیم کئے، پورے علاقے پورے صوبہ کے یا دیش بھر کے مسلمان سیسہ پلائی دیوار کی طرح مجلس کے پیچھے کھڑے پائے جائیں تو دیکھئے کس طرح سے نام سیکیولر پارٹیاں جو آج مجلس کے ساتھ اپنا نام جوڑنے سے کتراتی پائی جاتی ہیں، مجلس ہی سےانتخابی سمجھوتے کرتے ہوئے

پائی جائیں گی۔ انشاءاللہ اور ان انتخابی سمجھوتوں ہی سے مسلم طبقہ کو اپنی طاقت منواتے، سیاسی فائیدے حاصل کروائے جاسکتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں مسلم نمائیندگی کے حصول کے بجائے ، مسلم پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کو اپنی سیاسی پارٹی تسلیم کرتے ہوئے، اپنے پوری مسلم برادری کے یکطرفہ ووٹ ڈالے جانے والے پس منظر میں، یقینا نام نہاد سیاسی پارٹیاں مجلس ہی سےانتخابی سمجھوتے کئے، ہم مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں، ہمیں حکومتی منو سلوی میں حصہ داری دئیے،

ہمیں مستفید کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر گجرات 52% فیصد ھندو اکثریتی ووٹ نتائج دیکھتے ہوئے، بھارت کی مختلف نام نہاد سیکیولر پارٹیوں میں مصروف سیاست، اعظم خان جیسے لیڈران اور مسلم اکثریت پر اثر ںداز ہونے والے علماء کرام کو، آرایس ایس، یوم تاسیس سو سالہ تقریبات 2025 منائے جانے سے پہلے،کوئی ٹھوس سیاسی لاحیہ عمل طہ کرنا ہوگا۔ ہمارا کسی بھی اعتبار سے مجلس اتحاد المسلمین سے

کوئی بھی تعلق خاص و عام نہیں ہے، اسلئے بھارت کے 30 کروڑ مسلمانوں کے ووٹ اس 2014 بعد والے مودی راج میں جو بے وقعت کئے چھوڑ دئیے گئے ہیں انہیں وقعت و اقدار عطا کرنے، کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا! ہمیں امید ہے اب تو 85%ھندو برادری کے متحد ہوتے پس منظر میں ہم مسلمان تو اپنے اتحاد کا مظاہرہ کریں وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں