سیاسی کشیدگی میں قومی ا تفاق رائے!
ملک میں اسمبلیوں کی تحلیل کی سیاست کا زور ہے ، پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا جو اعلان کیا گیا تھا ،اس پر ابھی تک کوئی عمل در آمد نہیں ہو سکا ہے ،اس حوالے سے آئندہ کی ڈیڈ لائن دی جارہی ہیں ،لیکن اس معاملے پر اندرونی اختلافات کی خبریں بھی آرہی ہیں ، پی ڈی ایم قیادت کا خیال ہے
کہ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی نہ استعفے دیے جاسکیں گے، تاہم عمران خان نے اپنی سیاست میں ترپ کا پتا کھیل دیا ہے ،یہ اب ان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ ا س سارے کھیل کو کس طرح اپنے حق میں تبدیل کرتے ہیں۔
تحریک انصاف قیادت اپنے اعلان پر عمل پیراں ہے ،جبکہ پی ڈی ایم قیادت باور کروانے میں کوشاں ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خواکی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی نہ دیگر اسمبلیوں سے استعفے دیے جاسکیں گے ،کیو نکہ اس معاملے پر پی ٹی آئی کے اندر اختلافات ہیں ،پی ڈی ایم قیادت بظاہر پر اعتمادی کا تااثر دینے کی کوشش توکررہے ہیں ،لیکن اپنے اندر کی بے یقینی چھپا بھی نہیں پارہے ہیں
،اس بے یقینی کے اثرات اتحادی حکومت کی کار کر دگی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں ،مجموعی طور پر پا کستان میں مضبوط سیاسی حکومتوں اور سیاسی استحکام کا تاثر پیدا نہیں ہو سکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ بیرونی دنیا بھی پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت سے معاملات طے کرنے میں محتاط دکھائی دے رہی ہے ۔
دنیا بھر میںاتحادی حکومت اپنی ساکھ کھو چکی ہے ،لیکن پی ڈی ایم قیادت اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار ہے نہ انتخابات کروانا چاہتے ہیں ،اس وقت سب ہی کی نظریں اسمبلیوں کی تحلیل پر لگی ہوئی ہیں ،وزیر اعلی پنجاب اور خیبر پختونخوابار ہا باور کروا چکے ہیں کہ جب عمران خان ٖفیصلہ کریں گے ،اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی ، لیکن اس کے باوجود شک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ، اس کی وجہ ہے
کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اور منتخب ارکان اسمبلیاں توڑنے کے حق میں نہیں ہیں ،وہ بھی بدلتی ہوائوں کا رخ دیکھ رہے ہیں ،لیکن وہ مستقبل قریب میں کسی دوسری جگہ پر سیاسی ایڈ جسمنٹ سے مایوس ہو کر واپس اپنی ہی پارٹی قیادت کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائیں گے ،کیو نکہ اتحادی قیادت بدلتے حالات میں کسی کے ساتھ آئندہ کیلئے کمٹ منٹ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہی ہے ۔
اس وقت اتحادی حکومت کے پاس پی ٹی آئی قیادت سے مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ،اتحادی حکومت کو پی ٹی آئی سے انحراف کرنے والوں یا ان کے اتحادیوں سے معاملات طے کر نے کے بجائے براہ راست عمران خان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کر نا چاہئے ،عمران خان نے بھی پہلی بار پی ڈی ایم سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے ،اس پر پی ڈی ایم رہنمائوں کو مثبت رد عمل دینا چاہئے
،الٹا عمران خان کو گرفتاری اور نااہلی سے ڈرایا جارہا ہے ، اگر عمران خان کو نااہل کرکے یا گرفتار کر کے پی ڈی ایم قیادت سمجھتے ہیں کہ انہیں میدان صاف مل جائے گا تو یہ ان کی بڑی بھول ہے ،عمران خان جب وزیر اعظم ہائوس سے نکلے تھے تو عوام ان کی ساری غلطیاں نظر انداز کر کے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے ،اگر ایک بار پھر گرفتار یا نااہل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج بھی اچھے نہیں نکلیں گے ۔
یہ ملک میںبڑھتا سیاسی انتشار کسی کے مفاد میں نہیں ہے ،یہ وقت سیاسی انتشار کے بجائے افہام تفہم کی جانب بڑھنے کا ہے ،لیکن دونوں جانب سے سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے ،ایک طرف اسمبلیوں کی تحلیل جیسے اقدامات کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب نااہلی اور گرفتاری کی کائوشیں کی جارہی ہیں ،
اس کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوں گے ،وہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی تباہی کے عمل کو کئی درجے آگے لے جاسکتے ہیں ،ہمارا معاشی وجود پہلے ہی نازک مقام پر ہے ،ملک کو ناکامی سے دوچار کرنا ہے کہ اصلاح احوال کی طرف جانا ہے ،اس کا فیصلہ بہر حال سیاسی قیادت نے ہی کرنا ہے اوریہ ان کی سیاسی بصرت کا امتحان بھی ہے ۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف دنوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ملک و عوام کی فلاح و بہود کی جانب توجہ دیں ،کیو نکہ جو عوام کی بھلائی کی بات کرے گا ،جو مہنگائی ،بے روز گاری اور توانائی بحران کے خاتمے کی بات کرے گا
،وہی عوام میں حمایت حاصل کرے گا اور اسے ہی لوگ آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دیں گے ،عوام آئے روز کی محاذ آرائی اور الزام تراشی سے تنگ آچکے ہیں ، عوام بڑھتی سیاسی کشیدگی میں قومی اتفاق رائے چاہتے ہیں،اگر سیاسی قیادت نے اپنی روش نہ بدلی اور ایک دوسرے کو گرانے ،دیوار سے لگانے میں ہی لگے رہے تو عوام انہیں آئندانتخابات میں مسترد کر نے میں زرابھی دیرنہیںکریںگے ۔