37

سیاسی استحکام کا ادھورا خواب !

سیاسی استحکام کا ادھورا خواب !

ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کا سیاسی بحران سنگین تر ہوتا جارہا ہے،ایک طرف اسمبلیاں تحلیل کر نے کی باتیں جاری ہیں تودوسری جانب گورنر پنجاب نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلی کے عہدے سے فارغ کردیا ہے ، گور نر راج لگانے کی باتیںہورہی ہیں اور رینجرز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے،اس صورتحال پر قانونی مباحث، دعووں اور قیاس آرائیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ جس میں سردست عدالت میں جانے کا ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہیں پر طے ہونے کا امکان ہے۔
یہ معاملہ یہاں سے ہی چلا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختوانخوا اسمبلیوں کو توڑنے کی تاریخوں اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفوں کی اجتماعی تصدیق کے اعلانات کے پس منظر میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے صوبائی وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کردی

،وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لیا نہ گورنر کی طرف سے اس ضمن میں طلب کردہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو سکا، اسپیکر سبطین خان نے گورنر کے اعتماد کا ووٹ لینے کے ہدایت نامے کو غیر آئینی قرار دے کر نمٹا دیا ،اس کے جواب میںگورنر پنجاب نے وزیر اعلی چوہدری پرویز الٰہی کو اپنے عہد ے سے فارغ کر دیا ،زوہدری پرویز الہٰی کا گورنر کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے

کہ گورنر کا اقدام غیر قانونی ہے ،میں اسے نہیں مانتا اور اس کے خلاف عدالت جائیں گے۔چوہدری پرویز الہٰی نے لاہور ہائی کورٹ میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے حکم اور نوٹیفکیشن کے خلاف پٹیشن دائر کر دی ہے ،اس درخواست میں عدالتِ عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ اسپیکر کے کسی اقدام پر وزیرِ اعلیٰ کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی، عدالت گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے،

لاہور ہائی کورٹ نے درخواست فوری سماعت کے لیے مقرر کر دی اورچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے درخواست پر سماعت کے لیے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے،اس در خوست پر کیا فیصلہ ہو گا ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئے گا ،لیکن اس سے سیاسی عدم استحکام میںمزید اضافہ ہی ہوتا دکھائی دیے رہا ہے۔یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ حکومت اسمبلی توڑنا چاہتی ہے اور اپوزیشن اسے بچانے کے لیے انتہائی تگ و دو کر رہی ہے،حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنی اپنی آئینی تشریحات لیے جیت و ہار کی فکر میں ہیں،کسی کو یہ فکر ہی نہیں ہے کہ ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے

،ملکی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے، کاروبار بند ہورہے ہیں، سٹاک مارکیٹ برباد ہو تی جارہی ہے،حکومت کے پاس ٹماٹر پیاز خریدنے کے بھی پیسے نہیںہیں ،ملک ایک قدم آگے نہیں بڑھ پا رہا، ڈیفالٹ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور بڑے بڑے ارسطو سمجھا رہے ہیں کہ پرویز الٰہی وزیر اعلی رہے کہ نہیں رہے ہیں، عطا تارڑ جیسے لوگ بھی رات دو بجے گورنر ہائوس کے باہر کھڑے ہو کرایک گھنٹے کی طویل تقریر کرتے ہوئے قوم کو ایسے سمجھاتے ہیں کہ گورنر کے پاس وزیر اعلی کو فارغ کر نے کا اختیار ہے،

کہ جیسے قوم کو گورنر کے اختیار جاننے کے علاوہ کوئی دوسری فکر ہی نہیں ہے ،عوام گور نر کے اختیارات نہیں ،اپنی روٹی روزگار کے معاملات کا حل جاننا چاہتے ہیں۔یہ تاریخ پاکستان کی تباہی کا حال بیان کرتے ہوئے یہی لکھے گی کہ جب ملک ڈیفالٹ کر رہا تھا تو قوم کے اہل دانش تضادات سے بھرپورآئین کی تشریح میں لگے تھے، کوئی انہیںسمجھائے کہ اگر سارے اختیارات گورنر کو سونپ دیے جائیں

، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو جائے اور اس کانتیجہ کچھ بھی نکلے تو اس سے ملک کا معاشی بحران ختم ہونے والا نہیں ہے،یہ ملک ایسے نہیں چلے گا کہ جیسے ضد سے چلانے کی کوشش ہو رہی ہے ،اس ملک کے قومی مفاد میںکسی نہ کسی کو تو بیٹھ کے راستہ ڈھونڈنا ہی پڑے گااور کوئی نہ کوئی تو بتائے گا کہ اس کا حل کیاہے۔
دنیا بھر میںایسے حالات میں سیاسی قیادت اپنی ضد چھوڑ کر ایک میز پر آ بیٹھتے ہیں اور آئین و قانون کو سامنے رکھ کر ملکی مفادات کے پیش نظر فیصلے کرتے ہیں،مڈ ٹرم انتخابات کی روایت دنیا بھر میں موجود ہے، یہاں تو مڈ ٹرم کب کی گزر چکی اور اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں، اگر دونوں طرف کی نیتیں صاف ہوں تو معاملات کو آخری حد تک جانے سے روکا جا سکتاہے

،یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ عمران خان دونو ں صوبوں کی اسمبلیوں کو توڑ کر ہی رہیں گے، اگر اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد انتخابات کو آئینی مدت کے دوران نہیں کرایا جاتا تو حالات مزید سنگینی کی طرف جائیں گے،اس لیے بہترہے کہ ایسی نوبت نہ آئے اور تمام سیاسی جماعتیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسے فیصلے کریں کہ جو ملک و قوم کے مفاد میں ہوں،ہماری بے یقینی کی وجہ سے پہلے ہی ملکی معیشت کا دیوالیہ نکل چکا ہے، حکومت عوام کو کوئی ریلیف دے پا رہی ہے نہ سیاسی استحکام لا پارہی ہے،

اگر حکومتی اتحاد سمجھتے ہیں کہ اِن حالات میں انتخابات کا انعقاد اُن کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے تو اُنہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر سیاسی حالات اِسی طرح خراب ہوتے رہے اور معیشت اِسی انداز سے مزید زوال کا شکار ہوتی گئی تو آئینی مدت پوری ہونے کے بعد بھی اُن کے لئے کون سے ساز گار حالات پیدا ہوجائیںگے؟

اگردونوں فریق مل بیٹھیں تو کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے، ایک ایسا راستہ جو کہ ملک میں سیاسی استحکام لائے اور ہم اِس جمود کو توڑ کر آگے بڑھ سکیں کہ جس نے پوری شدت کے ساتھ ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،بصورت دیگر سیاسی و معاشی استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں