38

بدحال عوام سے بے نیاز حکمران !

بدحال عوام سے بے نیاز حکمران !

اتحادی حکومت جو کچھ عرصہ قبل حزب اختلاف کاکردار ادا کررہی تھی اور مہنگائی کے خلاف جلسے اور جلوس نکالا کرتی تھی، اس نے اپنے دور اقتدارکے آٹھ ماہ میں ہی مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ، اس کے بعد اب و زیراعظم شہباز شریف اعتراف کررہے ہیں کہ ان کے پاس معاشی بحران کے حل کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنا ان کی مجبوری ہے،

کیوں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جائے سوا کوئی چارہ ہی نہیںہے،اس حکومت کے پاس کوئی پروگرام ہے نہ ہی حکومت کرنے والوں میں کوئی ایسی صلاحیت ہے کہ ملک کو در پش بحرانوں سے باہر نکالا جاسکے ، لیکن حکومت نہیں چھوڑے گیے ،بلکہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ جس کی وجہ سے عوام کا جینا مزید دوبھر ہوجائے گا۔
وزیراعظم کا اپنے اقتدار کے آٹھ ماہ بعد اپنی ناکامی کا اعتراف کوئی بڑی بات نہیں ہے ، اس بات کواب ہر شخص جان چکا ہے،کہ ملک کی معاشی تباہی کس سطح پر پہنچ گئی ہے، اس وقت ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے ،

بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملک تیکنیکی ڈیفالٹ کرچکا ہے، کیوں کہ اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں، بینکوں نے درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے سے انکار کردیا ہے، ڈالر کے انخلا کی رفتار اتنی تیز ہوگئی ہے کہ جس نے تجارت و صنعت کی سرگرمیوں کو مفلوج ہی کرکے رکھ دیاہے، اس کے باعث کچھ عرصے میں اکثر اشیا کی قلت کے خطرات بڑھنے لگے ہیں۔
ایک روز قبل ہی وزیراعظم دعویٰ کررہے تھے کہ ان کی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچا لیا ہے،لیکن بالآخر خود ہی اپنے دعوے کی تکذیب کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں،اس صورتحال میںدیوالیہ نہ ہونے کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے کا فیصلہ کرلیا گیاہے، اگرآئی ایم ایف سے قرض مل گیا تو تیکنیکی طور پر ملک دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا، لیکن مہنگائی کے تباہ کن طوفان کا سامنا غریب اور متوسط طبقے کے لوگوںکو ہی کرنا پڑے گا، عوام ہی بارہادہری مصیبت میں پھنس رہے ہیں،

ایک طرف قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے،تودوسری طرف صنعتوں کی بندش، درآمدات و برآمدات میں کمی کی وجہ سے ذرائع روزگار محدود ہورہے ہیں، یعنی آمدنی میں اضافے کی کوئی صورت نکل ہی نہیں رہی ہے ،جب کہ اخراجات دنوں کے حساب سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ ملک بھر میں معاشی تباہی کوئی ایک دن میں نہیں آئی ہے، اس میں سابقہ حکومتوں کی کار گزاری بھی شامل رہی ہے، اس کا مرکزی نکتہ قرض کی معیشت ہے کہ جس سے نکلنے کے نعرے تو لگائے جاتے رہے، لیکن ایک قدم بھی ایسا نہیں ہے کہ جو کسی حکومت نے اْٹھایا ہے ،ہر دور حکومت میں ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت قر ضوں کا بوجھ ہی بڑھایا جاتا رہا ہے اور اب بھی مزید بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے

، وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کا خاندان اس پروگرام کاحصہ رہے ہیں، اس لیے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ انہیں معاشی تباہی کی کیفیت کا علم نہیں تھا، انہیں سب کچھ بخوبی علم تھا ،لیکن حصول اقتدار کی جلدی میں ساری مشکلات کو گلے لاگیا گیا اور اب اعتراف کیا جارہا ہے کہ ان کے پاس معاشی بحران کے حل کا کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔
اتحادیوں نے اقتدار کے لالچ میں ملک کو دائو پر لگا رکھاہے ،ملک میںاقتصادی تباہی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ جہاں امید کی کوئی کرن نظر ہی نہیں آرہی ہے، اس صورتحال میں استدلال نہیں چلے گا کہ ملک کو بچانے کے لیے عوام کو سخت اقدامات برداشت کرنے ہوں گے،عوام عرصہ دراز سے حکمروانوں کی نااہلیوں کابوجھ اُٹھاتے تنگ آچکے ہیں، عوام اب مزید کوئی بوجھ برداشت کر نے کیلئے تیار نہیں ہیں،عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو چکا ہے ، اس وقت عوام ہی حکومت مخالف نہیں ہو رہے ،بلکہ حکومت کی ناکامی کی گواہی تو وہ بھی دینے لگے ہیں، جو کہ شہباز شریف اور اسحق ڈار کی اہلیت کے دعوے کیا کرتے تھے۔
ہمارا ملک ایک عر صے سے تجربہ گاہ بنا ہوا ہے ،اس ملک کو بار بار ناکام تجربات سے گزارا جارہا ہے ،اس بار اتحادی حکومت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے ،مگر ہمیشہ کی طرح طاقتور حلقے اور اشرافیہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،ہماری اشرافیہ اپنے مفادات کے آگے دیکھنے اور سوچنے کی عادی ہے اور نہ ہی انہیں ملک کی خوشحالی اور عوام کی بہتری وبہبود کا کوئی خیال ہے، ایک طرف ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلاجارہاہے تو دوسری جانب عوام معاشی ومعاشرتی طور پر پستے چلے جارہے ہیں، اس کا علاج کسی کے پاس ہے نہ ہی کوئی حل نکالا جارہا ہے ،اگر اس کا علاج اور حل کسی کے پاس واقعی ہے تو سامنے لایا جائے، ورنہ بدحال عوام سے بے نیاز حکمرانوں کی نااہلیوں کے باعث ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں