66

آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے

آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ نوعمری میں ہی مشہورہوجاتے ہیں زندگی ان سے زیادہ وفانہیں کرتی اس کی ایک مثال پاپ موسیقی کو شہرت کی بلندیوںپرلے جانی والی پاکستان کیخوبرو گلوگارہ نازیہ حسن ہیں جو 3 اپریل 1965 کو کراچی میں پیدا ہوئیں 1980 میں پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے بھارتی فلم قربانی کا گیت ’ آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘ گا کر فلمی دنیا میں تہلکہ مچادیا اس گانے کی شہرت کے بعد نازیہ حسن نے گیتوں کے کئی البم اپنے بھائی زوہیب حسن کے جاری کئے

۔ 1981 میں ریلیز ہونے والے نازیہ حسن کے پہلے البم ’ڈسکو دیوانے‘ نے سابقہ تمام ریکارڈز توڑ دئیے کامیاب گلوکاری کیریئر کے وسط میں نازیہ حسن نے لندن کے دو نامور اسکولوں رچمنڈ امریکن انٹرنیشنل یونیورسٹی اور لندن یونیورسٹی سے معاشیات اور قانون میں ڈگری حاصل کی ،نازیہ حسن کراچی سندھ ، پاکستان میں پیدا ہوئیں

اور ان کی پرورش کراچی اور لندن میں ہوئی۔ وہ ایک بزنس مین بصیر حسن اور ایک فعال سماجی کارکن منیزہ بصیر کی بیٹی تھیں وہ گلوکار زوہیب حسن اور زارا حسن کی بہن تھیں۔نازیہ حسن نے لندن میں رچرڈ امریکن یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن اور اکنامکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی 1999 میں وہ اقوام متحدہ میں خواتین کے بین الاقوامی لیڈرشپ پروگرام میں شامل ہوگئیں بعد میں وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لئے کام کرنے گئیں ۔

نازیہ حسن کی زندگی میں زیادہ وفا نہیں کی اس نے 1995 میں شادی کی اور صرف پانچ سال بعد 13 اگست 2000 کو وہ اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملیں آپ ایک پاکستانی پاپ گلوکارہ ، گانا لکھاری ، وکیل اور سماجی کارکن تھیں۔ انہوں نے صرف 10 سال کی عمر میں اپنے میوزک کیریئر کا آغاز کیا اور پاکستان کے نامور گلوکاروں میں سے ایک بن گئیں۔انہوں نے پورے جنوب مشرقی ایشیا میں وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل کی

اور انھیں جنوبی ایشیا میں “پوپ میوزک کی ملکہ” بھی کہا جاتا ہے وہ اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ دنیا بھر میں 65 ملین سے زیادہ ریکارڈ فروخت کی جانے والی البم کی خالق ہیں۔ ان کے انگریزی زبان کے گانے ڈسکو دیوانے نے انہیں برطانوی چارٹ میں جگہ بنانے والی پہلی پاکستانی گلوکارہ بنادیا۔

۔نازیہ حسن نے 1980 میں آنے والے گانے “آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے” سے گلوکاری کا آغاز کیا جو بالی ووڈ کی ہندوستانی فلم قربانی میں شامل تھا ان کا پہلا البم ڈسکو دیوانے (1981) ، دنیا بھر کے چودہ ممالک میں ریلیز ہوا اور اس وقت کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ایشین پاپ ریکارڈ بن گیا اس کے بعد بوم بوم (1982)، ینگ ترنگ (1984) اور ہاٹ لائن (1987) جو زوہیب کے ساتھ ان کی آخری البم تھی۔ان کا آخری البم کیمرا کیمرا (1992) منشیات کے خلاف مہم کا حصہ تھا

وہ اپنے بھائی کے ساتھ وہ ٹیلی ویڑن کے متعدد پروگراموں میں بھی دکھائی دیں۔ 1988 میں وہ سنگ سنگ میں موسیقی کے استاد سہیل رانا کے ساتھ نظر آئیں۔انہوں نے شعیب منصور کے تیار کردہ پہلے پاپ میوزک اسٹیج شو ، میوزک ’89 کی میزبانی بھی کی ان کی کامیابی نے پاکستانی پاپ میوزک کو تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نازیہ حسن نے 1970 کی دہائی میں گلوکاری کا آغاز کیا

جب وہ بطور چائلڈ آرٹسٹ پاکستان ٹیلی ویڑن (پی ٹی وی) کے متعدد ٹیلی ویڑن پروگراموں میں نظر آئیں۔ان کے پیشہ ورانہ میوزک کیریئر کا آغاز پندرہ سال کی عمر میں ہوا جب انھوں نے 1980 میں بالی ووڈ فلم قربانی کے گانے “آپ جیسا کوئی” گایا۔ انہوں نے برطانیہ میں ایک پارٹی میں فلم ڈائریکٹر فیروز خان سے ملاقات کی۔ بعد میں فیروزخان نے لندن میں مقیم ہندوستانی موسیقی کے موسیقار بدو کے ساتھ نازیہ حسن کے آڈیشن کی درخواست کی۔ اس کے بعد بدو نے انھیں “آپ جیسا کوئی” کے لئے سائن کیا

یہ گانا ہندوستان میں ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور ان کے پاکستانی ہونے کے باوجود نازیہ حسن نے وہاں راتوں رات شہرت حاصل کی 1981 میں نازیہ حسن نے گانے کے لئے بہترین خواتین پلے بیک کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ نازیہ حسن اور ان کے بھائی زوہیب حسن نے اپنا پانچواں البم کیمرا کیمرا ریکارڈ کیا۔ البم کی ریلیز سے پہلے انھوں نے اور زوہیب نے اعلان کیا کہ یہ ان کی آخری البم ہوگی۔ یہ البم 1992 میں جاری کیا گیا تھا۔

یہ ان کے پچھلے البموں کی طرح بہت زیادہ کامیاب نہیں رہی اور اسے صرف اوسط رد عمل ملا۔ البم کی ریلیز کے بعد انہوں نے اپنی ذاتی زندگی پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے گلوکاری کا کیریئر چھوڑ دیا۔ بدو نے ایک گانا “میڈ ان انڈیا” تیار کیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ نازیہ حسن اسے گائے۔لیکن اس نے یہ گانا گانے سے انکار کر دیا

اس کے بعد یہ گانا علیشہ چنائے کو پیش کیا گیا۔
30 مارچ 1995 کو نازیہ حسن نے کراچی میں ایک بزنس مین مرزا اشتیاق بیگ سے شادی کی یہ ان کے کینسر کی تشخیص کے بعد ہوا۔ ان کا ایک بیٹا عزیز حسن ، 7 اپریل 1997 کو پیدا ہوا جس نے اپنی والدہ کی خواہش کی تکمیل میں حال ہی میں بیرسٹر ی کاامتحان امتبازی نمبروںسے پاس کیاہے۔ شادی نازیہ حسن کے لئے کوئی خوشگوار ثابت نہیں ہوئی اپنی موت سے محض دس دن قبل اسے طلاق دیدی گئی تھی

ایک انٹرویو میں ان کے بھائی زوہیب حسن نے بتایا کہ نازیہ کی ذاتی زندگی ہنگاموں سے بھری ہوئی تھی اور اس نے اپنے طور پر ذاتی لڑائیاں لڑی تھیں ۔پاکستان کا متحرک معاصر پاپ میوزک منظر خود نازیہ حسن کے پوپ کی تجدید کا پابند ہے 1990 کے دہائی کے بینڈوں ، بشمول وائٹل سائنز اور جوپیٹرز ، کو “میوزک ’89” پر ایک پلیٹ فارم ملا۔ہندوستان میں بھی انھوںنے پاپ موسیقی پر زورآور اثر ڈالا۔ انڈیا ٹوڈے میگزین نے انہیں ان سب سے اوپر 50 نمایاںافراد میں شامل کیا جنہوں نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کا مزاج اور مقام بدلنے میں اہم کردار اداکیا اس نے بالی ووڈ میوزک اور انڈیا پاپ کے موجودہ آئی ایسفارمزم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ “انہوں نے اپنے وقت سے بہت پہلے –

ہندوستان میں ذاتی البم کے رجحان کی ابتدا کی ، جسے بعد میں علیشا چنائے ، لکی علی اورشویتا شیٹی نے آگے جاری رکھا ان کی موسیقی کی بڑی کامیابی کے بعد نازیہ اور زوہیب پر EMI گروپ نے معاہدہ کیا اور وہ جنوبی ایشین کی پہلی گلوکار تھیں جن پر کسی بین الاقوامی میوزک کمپنی نے دستخط کئے تھے ڈسکو دیوانے کی مقبولیت کی وجہ سے ان کا استقبال کلکتہ ایئرپورٹ پر 5لاکھ افرادنے کیا

یہ اعزاز آج تک کوئی اور حاصل نہیں کرسکا مارچ 2002 کو نازیہ حسن ٹرئبیوٹ کنسرٹ کراچی میں منعقد ہوا وائٹل سائنز اور جوپیٹرز نے ایک ساتھ اسٹیج پر مظاہرہ کیا تقریبا 77 سالوں میں پہلی بار، کنسرٹ میں پْرجوش شائقین نے شرکت کی۔23 مارچ 2002 کو حکومت پاکستان نے نازیہ حسن کو اعلٰی شہری ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سرکاری تقریب میں یہ ایوارڈ صدر پاکستان پرویز مشرف کی جانب سے نازیہ حسن کی والدہ منیزہ بصیر کو پیش کیا گیا۔ 2007 میں ، احمد حسیب نے نازیہ حسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے میوزک پری کی ایک دستاویزی فلم تیار کی تھی

جو کارا فلم فیسٹیول اور یونیورسٹی آف انقرہ میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ 2009 میں ڈائریکٹر فراز وقار نے نازیہ کو موسیقی میں کام کرنے اور پاکستان کو فخر دلانے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ نازیہ حسن کو “پاکستان کی سوئیٹ ہارٹ” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔کہا جاتاہے نازیہ حسن کاحسن مقدس خوبصورتی اور معصومیت کی علامت ہے اور اس کا اکثر موازنہ راجکماری ڈیانا سے کیا جاتا ہے

کیونکہ وہ سونے کے دل کے مالک کے طور پر جانی جاتی تھیں 31 اکتوبر 2014 کو گلوبل وائسز آن لائن نے ان کا نام “ینگ ، آزاد خواتین کے نام سے منسوب کیا جنہوں نے پاکستان میوزک انڈسٹری میں اپنے لئے ایک منفردمقام ا پنیمحنت سے بنایا 16 نومبر 2014 کو ، کوک اسٹوڈیو پاکستان نے زوہیب حسن اور زو وائکاجی کے گائے ہوئے گانا “جانا” کے ساتھ سیزن سات میں نازیہ حسن کو خراج تحسین پیش کیا۔

اس گانے کو ناقدین اور سامعین نے بھی خوب پزیرائی دی۔ یہ گانا میوزک چارٹ پر بہت اوپر رہا اور میوزک چینلز اور ریڈیو اسٹیشنوں پر بہت مقبول ہے۔ 17 نومبر 2014 کو ، نازیہ حسن کو اے آر وائی نیوز کی “پاکستان کی 11 خواتین علمبرداروں میں سے ایک” کیطور پر نامزد کیا گیا نازیہ حسن کے والدین نے 2003 میں نازیہ حسن فاؤنڈیشن کی تشکیل کیلئے اپنی بیٹی کی کوششوں کو آگے بڑھایا تاکہ وہ کسی بھی ذات ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر دنیا کو سب سے بہتر مقام بناسکیں۔ نازیہ حسن فاؤنڈیشن نے فیصلہ کیا

کہ سڑک کے بچوں کے لیے اسکول کھولیں گے اور جس سے کام کرنے والے بچوں تعلیم میں مدد ملے گی وہ پندرہ سالوں پر محیط اپنے کامیاب گلوکاری کیریئر کے ذریعے پاکستان کی مشہور شخصیتوں میں سے ایک بن گئیں۔ انہیں متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز ملے اور 15 سال کی عمر میں فلم فیئر ایوارڈ جیتنے والی پہلی پاکستانی بن گئیں اور آج تک اس ایوارڈ کی سب سے کم عمر وصول کنندہ رہیں۔

نازیہ حسن پاکستان کے شہری ایوارڈ ، پرائیڈ آف پرفارمنس کے وصول کنندہ بھی تھیں۔ فلموں میں گانے کے علاوہ ، نازیہ حسن انسان دوست کاموں میں بھی مشغول رہیں اور 1991 میں یونیسف نے انھیں اپنا ثقافتی سفیر مقرر کیا ۔ گوگل نے 3 اپریل 2017 کو اْن کی 53ویں سالگرہ پر اْن کی تصویر کوڈوڈل کے طور پر پر شامل کیا۔ یہ ڈوڈل پاکستان، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے لیے تھا۔نازیہ حسن کو 2002 میں حکومت پاکستان کی طرف سے بعدازوفات پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا

’کینسر کے علاج کے دوران نازیہ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا کہ وہ براہ کرم کوشش کریں اور انہیں جینے کے لئے تھوڑا اور وقت دیں تاکہ میں اپنے بیٹے کو بڑا ہوتا دیکھ سکوں۔‘نازیہ حسن کی برسی پر ان کے بھائی زوہیب حسن نے ایک پیغام میں کہاہے کہ بدقسمتی سے زندگی نے اسے زیادہ وقت نہیں دیا لیکن اس کی خواہش کے مطابق اس کے بیٹے کو ایک خوبصورت، خیال رکھنے والا اور کامیاب فرد بنا دیا

جس کی پرورش اس کی نانی، بہن زہرہ اور میں نے کی۔ یہ نازیہ حسن کا خواب تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو وکیل بنائے اور آج جیسے وہ چاہتی تھی ویسا ہی ہوا نازیہ حسن محض 35 برس کی عمر میں پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہو کر 13 اگست سال 2000 کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن اْن کی سْریلی آواز اور مْْسکراتا چہرہ پرستاروں میں آج بھی مقبول ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں