42

ملک ڈیفالٹ کا خطرہ تو ہے!

ملک ڈیفالٹ کا خطرہ تو ہے!

ملک بھر میںمعاشی طو ر پر ابتر ہوتے حالات سب کے سامنے ہیں اور انہیں درست کرنے کی سب کو انتہائی فکربھی ہے کہ کہیں دیوالیہ نہ ہو جائیں ،لیکن یہ الگ بات ہے کہ معاشی طور پر جو نقصانات ہوتے سامنے نظر آرہے ہیں ،اْنہیں روکنے کیلئے سارے مل کر کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں، اگر سیاستدان مل بیٹھ کر میثاق معیشت کے لئے تیار نہیں تو عوام بھی اپنے رویوں میں تبدلی نہیں لارہے ہیں،گویا بحیثیت قوم سب مل کر ملک کو معاشی طور پر مستحکم کر نے کے بجائے ڈیفالٹ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
اس وقت ایک طرف ملک سنگین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام مسائل میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہا ہے ،تاہم سیاسی رہنما اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں، انھیں ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہونے سے فرصت ہی نہیں مل رہی ہے،جبکہ بدلتے حالات، عوام بڑی بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کون کردار ادا کرے گا

،اس صورتحال میں پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل عاصم منیر نہ صرف فکر مند ہیں، بلکہ ایک اہم تجویز بھی دی ہے کہ معیشت اور دہشت گردی کے چیلنجز پر قابو پا نے کے لیے سٹیک ہولڈرز کے درمیان قومی اتفاق رائے پید ا کرنے کی ضرورت ہے۔ایک طرف عسکری قیادت ملک کو درپیش چیلنجز کے بارے میں متفکر ہیں تو دوسری جانب سیاسی قیادت ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں،

ملک ڈیفالٹ ہونے کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ،اتحادی قیادت خود بھی خوش فہمی کا شکار ہے اور عوام کو بھی بے وقوف بنایا جارہا ہے کہ ملک کو دیفالٹ ہونے سے بچالیا گیا ہے ،جبکہ ہمارا مجموعی قرضہ ہمارے بجٹ سے بھی تجاوز کرنے لگا ہے،ڈالر کی پرواز اتنی اونچائی پر ہے کہ ملک میں نایاب ہو گیا ہے ،

اس صورتحال میںخدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بیرونی قوتوں کا پہلا حملہ ہمارے ایٹمی ہتھیا ر پر ہو گا ، یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار جن پر ہم ماہانہ اربوں روپے قوم کا پیٹ کاٹ کر بچانے اور مزید سنوارنے میں لگا رہے ہیں، اگر صور تحال تبدیل نہ ہوئی تو آئندہ چند ماہ بعد اپنے ہتھیار غیروں کے ہاتھ رخصت کرنے والے ہیں۔اس ساری صورتحال کے ذمہ دار سیاسی قیادت ہے

کہ جنہوں نے ملک کو قر ضوں کی دلدل میں دھکیل کر اس نہج تک پہنچا دیا ہے ،اگر سیاستدانوں سے پو چھا جائے تو کہتے ہیں کہ ملک چلانے کے کے لیے قرضہ ضروری ہے، لیکن آج تک کسی سیاستدان نے نہیں بتایا کہ ان قرضوں کے عوض کتنی عیاشیاں کی جاتی رہی ہیں، اس حوالے سے خواجہ آصف اسمبلی فلورپر ملک کے اہم ادارے پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں،مگر اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے اسمبلی میں پانچ سال گزارنے کے بعد کس طرح کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتے ہیں؟

اس ملک کو تباہی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والاکوئی ایک ادارہ یا کوئی ایک بد دیانت قیادت نہیں ،بلکہ اس میں فرشتہ صفت سیاستدانوں کا بھی برابر کا ہاتھ رہاہے۔اس ملک کے بدتر حالات کا کوئی ایک نہیں ،سارے ہی ذمہ دار ہیں ،لیکن کو ایک بھی اپنی غلطیاں ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ،الٹا ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹھرایا جارہا ہے ،یہ سیاسی رسہ کشی سیاست دانوں کی انا کی تسکین تو کرسکتی ہے،

لیکن اس سے ملکی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے، اگر ایسا ہوسکتا تو آج پاکستان اس حالت میں نہ ہوتا کہ ہمارے حکومتی عہدیدار کشکول پکڑے ہر طاقتور ملک ودارے کے در پر دستک دے رہے ہیں ،مگر انہیں ہر در سے دھت کاراہی جارہا ہے ،اس کے باوجو ان سنگین حالات میں بھی سیاست دان جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنی بے عزتی کا خیال ہے نہ ہی اب تک اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا احساس ہورہا ہے ، یہ احساس پیدا کیے بغیر ملکی حالات میں کسی بھی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ملک ڈیفا لٹ ہونے جارہا ہے

اور حکمران قیادت ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے، ہمارے رہنمائوں میں آج بھی وہ تفکر و تردد محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ جو اصلاح کی سوچ کا محرک بنتا ہے ،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران قیادت نے ملکی حالات کی سنگینی سے بھی کچھ نہیں سکھا ہے اور آج بھی اسی ڈنگ ٹپائو پا لیسی کے ذریعے کچھ مصنوعی قسم کے اقدامات کرکے اپنی کا میابیوں کے شادیانے بجانا چاہتے ہیں ،

لیکن اس وقت کے بدتر حالات میں ایسی مصنوعی کا گزاری قابل عمل نہیں ہے ، اس وقت قومی اصلاح کے عمل میں ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر مستقبل کیلئے بہتر فصلوں کے ذریعے ہی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا یا جاسکتا ہے ،بصورت دیگرہمارا حال جہاں دنیا دیکھے گی ،وہیں ہماری آئندہ نسلیں بھی تاقیامت بددعائیں دیتی ہی نظر آئیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں