44

آل عرب اہل نائطہ یا اہل بھٹکل ساکن خلیج عرب ساحل جنوب ھند

آل عرب اہل نائطہ یا اہل بھٹکل ساکن خلیج عرب ساحل جنوب ھند

نقاش نائطی
۔ +96656267707

بھٹکل اور اطراف بھٹکل آباد اہل نائط کا تعلق شمال یمن کے علاقے حضر موت سے بتایا جاتا ہے، عرب علاقوں میں بیرون یمن رہائش پذیر ایسے لوگوں کو حضارم یا حضرمی بھی کہتے ہیں،جبکہ بھارتیہ مختلف ساحلی علاقوں میں آباد، ایسے لوگوں کو اہل نائط یا نائطی کہتے ہیں، نوآید ویسے تو فارسی لفظ ہے, مطلب نئے آئے ہوئے ، گمان غالب ہے نوآید سے نائط یا نائطہ ہوتے ہوئے,نوائط لفظ میں ڈھل کر رہ گیا ہو۔

تاریخ کے اوراق کنگھالنے سے پتہ چلتا ہے اللہ کے رسول محمد ﷺ کی بعثت سے پہلے سے, عرب تجار کے اہل بھٹکل والوں سے تجارتی تعلقات تھے۔ عرب قافلے اپنی بادبانی کشتیوں میں تجارتی غرض سے نکلتے تھے کبھی منزل متعین ہوتی تھی تو, کبھی نئی منزل کی تلاش انہیں مختلف ٹھکانوں تک پہنچاتی تھی، تو کبھی سمندری طوفانی ہواؤں کی دوش پر, چار و ناچار کسی نئے مقام تک پہنچ بھی جایا کرتے تھے۔

ماقبل بعثت رسولﷺ عربوں کےبھارت کے مکینوں سے تجارتی تعلقات کا علم, تاریخ کی کتابوں میں نہ صرف ملتا ہے, بلکہ ھند کے پانچ مختلف ساحلوں پر آباد اہل نائطہ کے قبیلوں کے رہائشی گھروں و کھان پان مشترک اقدار بھی یکساں پائے گئے ہیں۔ کرناٹک کے بھٹکل و اطراف بھٹکل مختلف ساحلوں پر کم و بیش ایک لاکھ سے زائد اہل نائط آباد ہیں،

اسی طرز گجرات احمد آباد کے اطراف کھمبات کے ساحلوں پر تو، مہاراشٹرا کونکن ساحلی پٹی پر، کیرالہ تریچور کے اطراف ساحل پر اور ٹمل ناڈ کریکلا کے ساحل پر آباد اہل نائطہ کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی، ان کے گھروں کی تعمیر مشابہت و کھان پان مشابہت قدرے یکساں پائی جاتی ہے۔

اہل نائطہ بھٹکل میں ایک گلی کے نکڑ سے, دوسرے گلی کے نکڑ تک تسلسل والے مشترکہ دیواروں کے درمیان بنے باریک مگر لمبے گھر گھروں کے باہر بامبوشوٹ پٹیوں والی لٹکتی چلمن،گھر کے مکینوں کے لئے پردہ کا کام بھی کرتی تھیں، اورگھر کے پہلے دالان میں دیوڑھی سے متصل سر راہ، نسآء کے دیکھنے بیٹھنے کے لئے، کھڑکی دار ایک بیٹھک، جسے مقامی زبان میں “ایندلو” کہا جاتا تھا، بھٹکل و آس پاس بھٹکل گاؤں دیہات گھروں کے ساتھ ہی ساتھ، ان پانچوں اہل نائطہ کے سکونت پذیر علاقوں کے فن تعمیر رہائشی گھر کا مشترک ورثہ ہوا کرتا تھا۔ رہائشی گھروں کی فن تعمیر، ان پانچوں علاقوں میں، چونکہ مشترک پائے جاتے ہیں

، اس لئے آباد گھروں کے سلسلہ وار طرز تعمیر کو، ہمارے آبائی یمنی فن تعمیر سے جوڑا جاتا ہے۔ بھٹکل والوں کا پسندیدہ مچھلی سالن امبٹ لوخا کرناٹک کیرالہ ٹامل ناڈو مہاراشٹرا، کونکن، گجرات میں نہایت مرغوب سالن تصور کیا جاتا ہے۔پورے بھارت کے جملہ مسلمین اگر حنفی مسلک ہیں تو اہل نائطہ سے آباد یہ پانچویں علاقے شافعی فقہ کے ماننے والے ہیں۔ تاریخ بتائی ہے کہ ڈیڑھ دو ہزار سال قبل سے اہل عرب کے ھند کے ان علاقوں سے تجارتی تعلقات تھے

عربی نسل گھوڑے کی بھارت کے مختلف راجوں مہاراجوں کے یہاں ، بڑی مانگ تھی بادبآنی کشتیوں سے عرب تجار گھوڑے،کھجور، زیتون و زیتون کا تیل بھارت لاکر بیچتے تھے اور یہاں سے کالی سفید مرچ، لال مرچ، سوکھے لیمون، دیگر گرم مصالحہ جات، چاول وغیرہ عرب کھاڑی میں لے جاکر بیچتے تھے۔ چونکہ بادبانی کشتیوں میں سفر لمبا اور قدرے غیر متعینہ ہوتا تھا اس لئے اپنے اپنے تجارتی مستقر پر، اپنے حسن اخلاق سے مقامی عورتوں سے بیاہ رچے، کچھ لوگ مستقل سکونت پذیر بھی تھے۔

شاید اسی لئے گجرات احمد آباد کھمبات کے ساحل پر قائم، جونی مسجد غالبا چھٹی عیسوی صدی قبل کی مسجد بتائی جاتی ہے۔ یہ اس لئے کہ اس علاقے میں آباد اہل نائطہ کے لوگوں نے،شروع میں تعمیر اپنی جونی مسجد کا قبلہ رخ، اس وقت تک عمل پیرا، قبلہ اول فلسطین بیت المقدس کی طرف ہی کا بنایا ہوا تھا۔ چونکہ اس وقت تک مدینہ کے مسلمان بھی قبلہ اول بیت المقدس ہی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے،

اسلئے گجرات کھمبات کے اہل نائطہ نے بھارت کی سرزمین پر بنائی اولین مسجد کا رخ بیت المقدس ہی کا بنایا ہوا تھا۔اور غالب گمان یہ ہے کہ بعثت رسول ﷺ کے ابتدائی چند سالوں درمیان ہی یہ کھبات کی جونی مسجد تعیر کی گئی تھی بھارت کی دوسری تعمیر مسجد کیرالہ تریچور چیرامن جمعہ مسجد ہے،جسے 629 عیسوی میں بنایا گیا تھا اور ٹمل ناڈ کلیکیرے کی جمعہ مسجد اور بھٹکل کی غوثیہ مسجد بھی انہی ایام تعمیر بتائی جاتی ہے۔

ساتویں صدی کے آس پاس حجاز بن یوسف کے زمانہ اقتدار حکومت، اس کے ظلم سے،بہت سے مختلف عرب علاقوں کے تجار قبیلے، اپنی آل اولاد کے ساتھ، بھارت سمیت عالم کے مختلف اپنے تجارتی مستقر پر جاکر رچ بس گئے تھے۔ شاید اسی لئے بھٹکل کا معروف شاہ بندر خاندان جس کے بارے میں غالب گمان عراق کا مشہور تجارتی خاندان بھی ان ایام بھٹکل آبسا تھا،البتہ بھٹکل کے اکثر خاندانوں کا سلسلہ نصب یمن قبائل پر مشتمل ہے

۔ ابھی نوے کی دیے سے قبل تک، عرب ممالک میں، عالمی ٹی وی چینلز کی ماورائیت والے دور میں،سعودیہ کے معروف آرمکو چینل 2 پر رمضان مہینے میں،پورے ماہ تک، شب کے وقت، عرب اقرار پر بنائے گئے مختلف سیریل جو دکھائے جاتے تھے، ان میں سب سے مشہور شاھبندر تجار سیریل تھا۔ آج بھی مملکت کے عمر رسیدہ افراد، ہمارے خاندانی نام شاھندر سن کر، ان سیریل کا تذکرہ کیا کرتے ہیں۔ چونکہ ان ایام بھارت کے مختلف حصوں پر مختلف راجوں مہاراجوں کا راج پاٹ تھا

اور انکے آپسی جنگ و جدال کے لئے انہیں عربی النسل گھوڑوں کی ترسیل اچھی خاصی تجارت تھی اس لئے بھٹکل کے قریب ہونور یا یوناور میں، شراوتی ندی کے ساحل پر، “ہوسپٹنم” (نیا آباد شہر) اہل نائطہ تجار کی اپنی حکومت قائم تھی، یہ دراصل انکی تجارت کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا اور یہاں سے یہ گھوڑے فوجی دستوں کی نگرانی میں، بھارت کے انیک راجوں مہاراجوں تک پہنچائے جاتے تھے۔اس لئے حجاج بن یوسف کے زمانے میں اہل نائط عربوں کی ایک کثیر تعداد بھٹکل و اطراف بھٹکل ہی آکر آباد ہوگئی تھی۔

اسی لئے کرناٹک کے ساحل بھٹکل و آس پاس کے اڈپی کا ساحلی علاقہ ملپے کوڑی، کاپو، تونسے سے کنداپور، گنگولی، بیندور، شیرور، بھٹکل، ٹینگن گنڈی، کائیکنی، منکی،ہیرانگڈی، سمسی، ہونار، کمتہ کوڑی تک کے ساحلی علاقوں میں، اہل نائط آباد ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ آبادی شہر بھٹکل میں ہے۔ہاں البتہ آج سے دو ڈھائی سو قبل حیدر آباد نظام حکومت کے عالمی سطح پر قائم خلافت عثمانیہ ترکیہ سے اچھے رشتہ داری والے تعلقات تھے اس لئے ان ایام اہل عرب یمن کے کچھ قبیلے حیدر آباد میں آکر بس گئے تھے
بھٹکل اور اطراف بھٹکل آباد اہل نائط کا تعلق شمال یمن کے علاقے حضر موت سے بتایا جاتا ہے، عرب علاقوں میں بیرون یمن رہائش پذیر ایسے لوگوں کو حضارم یا حضرمی بھی کہتے ہیں،جبکہ بھارت کے مختلف ساحلی علاقوں میں آباد ایسے لوگوں کو اہل نائط یا نائطہ یا نائطی بھی کہتے ہیں، نوآید ویسے تو فارسی لفظ ہے مطلب نئے آئے ہوئے ، گمان غالب ہے نوآید سے نائط یا نائطہ ہوتے ہوئے نوائط لفظ میں ڈھل کر رہ گیا ہے

۔اہل نائطہ نے اپنے اثاثی زبان فارسی و عربی کو مقامی گؤنیس، کونکنی اور اس وقت شہر بھٹکل والا علاقہ مرٹھواڑہ سے کا حصہ رہنے کی وجہ سے مراٹھی زبان کے مرکب سے اپنی نئی زبان نائطی بولنے کی حد تک ایجاد کی گئی ہوئی زبان تھی اور لکھنے کے لئے شروع میں عربی بعد میں عربی سے مماثل اردو طرز ٹحریر کو منتخب کیا تھا۔اہل نائطہ تجار کی تجارتی اعداد و شمار خفیہ اکڑوں کی شکل لکھنے کا الگ فن بھی حال نصف صد سال قبل کے تجار تک نسل در نسل چلا آرہا تھا لیکن لگتا ہے

وہ تجارتی اعداد و شمار اکڑے لکھنے کے فن سے موجودہ نسل مکمل ماورائیت اختیار کرچکی ہے۔ اب بھی کچھ عمر رسیدہ تجار سے وہ اعداد و شمار لکھنے کے نائطی ورثہ فن موجودہ نئی نسل میں منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی جاسکے تو قومی تاریخ کی بقاء پر یہ ایک احسان عظیم ہوگا

تاریخ کے اوراق کنگھالنے سے پتہ چلتا ہے اللہ کے رسول محمد ﷺ کی بعثت سے پہلے سے عرب تجار کے اہل بھٹکل والوں سے تجارتی تعلقات تھے۔ عرب قافلے اپنی بادبانی کشتیوں میں تجارتی غرض سے نکلتے تھے کبھی منزل متعین ہوتی تھی تو کبھی نئی منزل کی تلاش انہیں مختلف ٹھکانوں تک پہنچاتی تھی، تو کبھی سمندری طوفانی ہواؤں کی دوش پر چار و ناچار کسی نئے مقام تک پہنچ بھی جایا کرتے تھے۔

ماقبل بعثت رسول ﷺ عربوں کے بھارت کے مکینوں سے تجارتی تعلقات کا علم تاریخ کی کتابوں میں نہ صرف ملتا ہے بلکہ ھند کے پانچ مختلف ساحلوں پر آباد اہل نائطہ کے قبیلوں کے رہائشی گھروں و کھان پان مشترک اقدار بھی یکساں پائے گئے ہیں۔ کرناٹک کے بھٹکل و اطراف بھٹکل مختلف ساحلوں پر کم و بیش ایک لاکھ سے زائد اہل نائط آباد ہیں،

اسی طرز گجرات احمد آباد کے اطراف کھمبات کے ساحلوں پر تو، مہاراشٹرا کونکن ساحلی پٹی پر، کیرالہ تریچور کے اطراف ساحل پر اور ٹمل ناڈ کریکلا کے ساحل پر آباد اہل نائطہ کا،ان ادوار ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی، ان کے گھروں کی تعمیر مشابہت و کھان پان مشابہت قدرے یکساں پائی جاتی ہے۔ اہل نائطہ بھٹکل میں ایک گلی کے نکڑ سے دوسرے گلی کے نکڑ تک تسلسل والے مشترکہ دیواروں کے درمیان بنے باریک مگر لمبے گھر گھروں کے باہر لٹکتی بامبوشوٹ پٹیوں والی لٹکتی چلمن، گھر کے مکینوں کے لئے پردہ کا کام بھی کرتی تھیں، اور گھر کے پہلے دالان میں دیوڑھی سے متصل کمرہ نما پلنگ یا چوڑی میز پر، کھڑکی دار ایک بیٹھک جسے مقامی زبان میں ایندلو کہا جاتا ہے

اکثر پرانے طرز مکانوں میں سر راہ نسآء کے دیکھنے کے لئے، بھٹکل و آس پاس بھٹکل گاؤں دیہات گھروں کے ساتھ ہی ساتھ ان پانچوں اہل نائطہ کے سکونت پذیر علاقوں کے فن تعمیر رہائشی گھر کا مشترک ورثہ ہوا کرتا تھا۔ چونکہ رہائشی گھروں فن تعمیر ان پانچوں علاقوں میں مشترک پائے جاتے ہیں اس لئے یہان آباد گھروں کے سلسلہ وار طرز تعمیر کو ہمارے آبائی حضرت نفرت علاقہ کی یمنی فن تعمیر سے جوڑا جاتا ہے۔ بھٹکلیوں کا پسندیدہ مچھلی سالن امبٹ لوخا کرناٹک کیرالہ ٹامل ناڈو مہاراشٹرا،کونکن، گجرات میں نہایت مرغوب سالن تصور کیا جاتا ہے۔پورے بھارت کے جملہ مسلمین اگر حنفی مسلک ہیں تو اہل نائطہ سے آباد یہ پانچویں علاقے شافعی فقہ کے ماننے والے ہیں۔ تاریخ بتائی ہے

کہ ڈیڑھ دو ہزار سال قبل سے اہل عرب کے ھند کے ان علاقوں سے تجارتی تعلقات تھے عربی گھوڑے بھارت کے مختلف راجوں مہاراجوں کے یہاں بڑی مانگ تھی، بادبآنی کشتیوں سے عرب تجار گھوڑے کھجور زیتون و زیتون کا تیل بھارت لا بیچتے تھے اور یہاں سے کالی مرچ لال مرچ، سوکھے لیمون، دیگر گرم مصالحہ جات، چاول وغیرہ عرب کھاڑی میں لے جاکر بیچتے تھے۔ چونکہ بادبانی کشتیوں میں سفر لمبا اور قدرے غیر متعینہ ہوتا تھا اس لئے اپنے اپنے تجارتی مستقر پر، اپنے حسن اخلاق سے مقامی عورتوں سے بیاہ رچے کچھ لوگ مستقل سکونت پذیر بھی تھے۔ شاید اسی لئے گجرات احمد آباد کھمبات کے ساحل پر قائم جونی مسجد غالباپانچویں عیسوی صدی زمانہ آخری کی مسجد بتائی جاتی ہے۔

یہ اس لئے اس علاقے میں آباد اہل نائطہ کے لوگوں نے شروع میں تعمیر اپنی جونی مسجد کا قبلہ رخ اس وقت تک عمل پیرا دیں ابراہیمی، قبلہ اول فلسطین بیت المقدس کی طرف ہی کا بنایا ہوا تھا۔ چونکہ اس وقت تک مدینہ کے مسلمان بھی قبلہ اول بیت المقدس ہی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے اسلئے گجرات کھمبات کے اہل نائطہ نے بھارت کی سرزمین پر بنائی اولین مسجد کا رخ بیت المقدس ہی کا بنایا ہوا تھا۔ بھارت کی دوسری تعمیر مسجد کیرالہ تریچور چیرامن جمعہ مسجد ہے جسے 629 عیسوی میں بنایا گیا تھا اور ٹمل ناڈ کلیکیرے کی جمعہ مسجد اور بھٹکل کی غوثیہ مسجد بھی انہی ایام تعمیر بتائی جاتی ہے۔

ساتویں صدی کے آس پاس حجاز بن یوسف کے زمانہ اقتدار حکومت، اس کے ظلم سے،بہت سے مختلف عرب علاقوں کے تجار قبیلے، اپنی آل اولاد کے ساتھ، بھارت سمیت عالم کے مختلف اپنے تجارتی مستقر پر جاکر رچ بس گئے تھے۔ شاید اسی لئے بھٹکل کا معروف شاہ بندر خاندان جس کے بارے میں غالب گمان عراق کا مشہور تجارتی خاندان بھی ان ایام بھٹکل آ بسا تھا،البتہ بھٹکل کے اکثر خاندانوں کا سلسلہ نصب یمن قبائل پر مشتمل ہے۔

ابھی نوے کی دیے سے قبل تک، عرب ممالک میں، عالمی ٹی وی چینلز کی ماورائیت والے دور میں،سعودیہ کے معروف آرمکو چینل 2 پر رمضان مہینے میں،پورے ماہ تک شب کے وقت عرب اقدار پر بنائے گئے مختلف سیریل جو دکھائے جاتے تھے ان میں سب سے مشہور شاھبندر تجار سیریل تھا۔ آج بھی مملکت کے عمر رسیدہ افراد ہمارے خاندانی نام شاھبندر تذکرہ کرتے ہوئے ان سیریل کا تذکرہ کیا کرتے ہیں۔

چونکہ ان ایام بھارت کے مختلف حصوں پر مختلف راجوں مہاراجوں کا راج پاٹ تھا اور انکے آپسی جنگ و جدال کے لئے، انہیں عربی النسل گھوڑوں کی ترسیل اچھی خاصی تجارت تھی اس لئے بھٹکل کے قریب ہونور یا ہوناور میں شراوتی ندی کے ساحل پر اہل نائطہ تجار کی اپنی حکومت قائم تھی یہ دراصل انکی تجارت کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا اور یہاں سے یہ گھوڑے فوجی دستوں کی نگرانی میں، بھارت کے انیک راجوں مہاراجوں تک پہنچائے جاتے تھے

۔اس لئے حجاج بن یوسف کے زمانے میں اہل نائط عربوں کی ایک کثیر تعداد بھٹکل واطراف بھٹکل ہی آکر آباد ہوگئی تھی اسی لئے کرناٹک کے ساحل بھٹکل و آس پاس کے اڈپی کا ساحلی علاقہ ملپے کوڑی، کاپو، تونسے سے کنداپور، گنگولی، بیندور شیرور، بھٹکل، ٹینگن گنڈی، کائیکنی منکی،ہیرانگڈی، سمسی ،ہونار، کمٹہ، کوڑی تک کے ساحلی علاقوں میں اہل نائط آباد ہیں اس میں سب سے زیادہ آبادی شہر بھٹکل میں ہے

بھارت میں ان ایام آباد ھندو قوم کی اکثریت ساکاھاری یعنی ترکاری کھایا کرتی تھی اس لئے مختلف مچھلیوں سمیت سمندری مخلوق کھانے سے برادران وطن پرہیز کرتے تھے اور کچھ ھندو قبیلے جو ایک حد تک مرغی بکری کے گوشت کھاتے تھے اسی نسبت سے، دیگر سمندری مخلوقات سے پرے، کچھ اقسام مچھیلوں کی وہ کھایا کرتےتھے۔چونکہ اہل نائط تجار کی اکثریت کا یمن و دیگر عرب ساحلی علاقوں کے عربوں ہی سے تعلق رہا ہےاس لئے مچھلی و دیگر دریائی مخلوقات کو یہ عرب تجار بڑے ہی شوق سے کھاتے تھے۔اسی لئے پورے بھارت کے چار مختلف علاقوں میں سابقہ ڈیڑھ خزاں سال آباد آہل نائطہ مچھلی و دیگر سمندری مخلوقات شوق سے کھاتے پائے جاتے ہیں

مسلز یا شینونیو

مچھلی کے علاوہ سمندری پہاڑی چٹانوں کے نچلے حصے سے منسلک کھارے پانی میں، پرورش پانے والے، لمبے کالے سیب نما مخلوق جسے مقامی زبان میں شینؤنیو، انگریزی میں مسل کہا جاتا ہے اہل نائطہ بڑے شوق سے، نہ صرف کھاتے تھے بلکہ ان بڑے سائز کے سیپوں کے درمیان کھرچے ناریل کے ساتھ پسے چاول کو بھر کر، بخار یعنی اسٹیم میں پکا کر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ان مسل سیپوں کو ایک زمانہ تک صرف اہل نائط کرناٹک، کیرالہ،ٹمل ناڈ ومہاراشٹرا کونکن والے اہل نائط ہی کھاتے تھے۔ لیکن اب مقامی دیگر افراد بھی کھانے لگے ہیں۔
ماڑولیو یا کلیمپ کی ایک شکل
کم پانی والے سمندری ساحل پر چھوٹے قسم کے ایرانی پستہ کی شکل والے سیب زیر زمین پائے جاتے تھے، جسے موج کے آکر چلے جانے کے بعد زمین پر بننے والے باریک ترین سوراخ میں انگلی ڈال، زمین کھرچ کر نکالا جاتا تھآ اس مخصوص سیب کو ماڑؤلیو کہتے ہیں، اس قسم کے سیب سے ایک طرف کی سیب جدا کرتے ہوئے، گوشت والے حصے کے ساتھ پسے ناریل والا مخصوص سالن تیار کیا جاتا تھا جسے ماڑولیا لوخا یا ماڑولیا سامبار کہا جاتا تھا یہ ایک انتہائی لذیذ سالن ہوتا تھا۔ لیکن آجکل یہ ماڑولیو نکالنے کی محنت کے مقابلے کم ملتی اجرت کے سبب ،یہ غذا نایاب سی ہوکر رہ گئی ہے۔آج بھی،مصباح جالی یاکائکنی مرڈیشور کے کم گہرائی والے ساحل پر مخصوص چاند راتوں میں تلاش کرنے پر ماڑولیو حاصل کر، اس لذیذ ترین ماڑولیا لوخا سے محظوظ ہوا جاسکتا ہے
اویسٹر یا کالوا ماس

سمندری موجوں سے ہچکولے کھاتے پہاڑی پھتروں پر کچھ سیب نما ڈکھن پائے جاتے ہیں انہیں باریک نوکدار درانتی سے، اکھیڑنے پر دودھیا طرز کا ملائی دار لوتھڑا پایا جاتا ہے، اسے مقامی زبان میں کالوا ماس اور انگریزی میں اویسٹر کہتے ہیں،یہ ایک صحت افضاء لزید سمندری گوشت ہوتا ہے جو مقامی اروی ترکاری کے ساتھ لال مرچ سالن میں پکایا جانے والا لذیذ ترین سالن ہوتا ہے۔ فارایسٹ یورپ امریکہ میں بھی یہ شوق سے کھایا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم بھارت کے ساحلی علاقوں میں بسے آل عرب اہل اس کالواماس کو شوق سے کھاتے ہیں اب تو مقامی لوگ بھی اسے کھانے لگے ہیں

جھینکے یا شیونسو

جھینگے یا شیونسو سمندری غذاؤں کی ایک لاجواب قسم ہے۔ بھارت میں آباد مسلمانوں کی اکثریت خصوصا حنفی مسلک والے بھی جھینگے یا مچھلی کے علاوہ سمندری دیگر مخلوقات کھانے سے پرہیز کرتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن الحمد للہ اہل عرب نائطہ قوم، اپنے آبائی کھان پان طرز پر، اکثر سمندری مخلوقات کو شوق سے کھاتے پائے جاتے ہیں۔اسی لئے اہل نائطہ کی جھینگے بھی مرغوب غذا تصور کی جاتی ہے۔

اہل نائطہ کے یہاں پکائے جانے والی جھینگا دم بریانی اور مخصوص مچھلی دم بریانی عالم کے اور حصوں میں شاید کہیں پکائی جاتی ہو۔ بھارت کے مقتدر صحافتی حلقوں میں ، بھٹکل کی مچھلی بریانی اور جھینگے بریانی بڑی معروف و مشہور تصور کی جاتی ہے۔جھینگوں ہی کی ایک بڑی قسم لوبسٹر یا ام الربیان جسے بھٹکلی زبان میں کٹا شیونس کہا جاتا ہے زمانہ قدیم سے، اہل نائطہ لوگ اس کے دیوانے ہوتے ہیں۔

ان جھینگوں کی ایک انتہائی چھوٹی قسم جسے انگریزی میں کرل اور مقامی زبان میں بھبشو کہا جاتا ہے، اسے سوکھا کر لمبے عرصے تک دیگر سالن میں لذت بڑھانے استعمال کیا جاتا ہے۔ اہل بھٹکل اسے ناریل کے ساتھ پیس کر،اس کی چٹنی بناتے ہیں جو آچار کی طرح کھانے کے ساتھ استعمال ہوتی ہے۔ بھبشو چٹنی جب بھی بنتی ہے تو پھتر کے بڑے گول گہرے سیل پر اسے پیسنے کے بعد، پھتر دھوئے پانی میں گرم گرم لال موٹے ابلے چاول ڈال ،کھانے کا مزہ ہی اور ہوتا ہے۔ ٹمل ناڈ کلیکرے کے اہل نائطہ ان سوکھی بھبشو میں تیل میں فرائی کئے پیاز برستہ ملاکر ، محفوظ رکھتے ہیں اور ٹھنڈ موسم میں چائے کے ساتھ نوش فرماتے ہیں۔ کچھ اسی قسم سے اہل یمن عرب بھی ان بھبشو پیاز برستہ کو منقہ کے ساتھ کھاتے ہیں

بونشے یا کٹل فش یا اسکویڈ فش

یہ ایک دریائی مخلوق ہے ویسے تو یہ جیلی فش فیملی کی ہوتی ہے لیکن اس کے اندر قدرت کابنایا انسانی زبان کی طرح سفید پھتر،جسے کٹل بون یا کٹل فش بھی کہا جاتا ہے، جو اسے تیزی سے سمندر کے اندر حرکت کرنے مدد دیتا ہے۔ ویسے یہ دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک چھوٹے، دو سے چار انچ والے جو اسکویڈ کہلاٹے ہیں، دوسرے جو سائز میں قدرے بڑے دو تین کلو فی سائز کے، یہاں تک نیوزی لینڈکے سمندری پانی میں قد آدم سے بھی بڑے پائے جاتے ہیں۔ اہل بھٹکل اسے بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ان کے انگلئوں کے سائز لمبے ٹکڑوں کو مصالحہ لگا تیل میں فرائی کرکے بھی فنگر چپس کے طور کھایا جاتا ہے

کرلے کریب یا سرطان البحر

کرلے دو اقسام کے پائے جاتے ہیں ایک سمندری تو دوسرے دریائی، سمندری کرلے، سائز میں متوسط کم و بیش دو سے چار سو گرام وزن والے، پانی سے باہر آتے کچھ لمحوں میں ہی، بے جان ہوجاتے ہیں اور میٹھے پانی والے دریائی کرلے،جو سائز میں انتہائی بڑے، کئی کئی کلو وزن والے، جو پانی سے باہر آنے کے بعد بھی گھنٹوں زندہ رہتے ہیں، اسی لئے عموما انہیں باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ اسلامی فقہ شافعی کے مطابق ،سمندری کرلے مسلمانوں کے کھانے کے لئے مطلقا حلال ہوتے ہیں اور دریائی کرلے مطلقا حرام ہوتے ہیں۔ لیکن فقہ احناف میں دونوں اقسام کے سمندری و دریائی کرلوں کا کھانا بھی مکروہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسلئے بھارتیہ مسلم آبادی سوائے اہل نائطہ کے، اسے کھانے سے پرہیز کرتی پائی جاتی ہیں

واٹوے یا کلیمپ

یہ بھی ایک قسم کی پانی کی مخلوق ہے دو طرفہ بند سیپوں کے بیج گوشت کا لوتھڑا پایا جاتا ہے۔ سمندر کے کنارے ساحل پر ریت کے اندر دبے پائے جاتے ہیں یا سمندر سے ملحق ندی نالوں کی زمین میں بھی یہ پائے جاتے ہیں۔ عموما اس کا گوشت نکال کر سالن بناکر استعمال کیا جاتا ہے یا کھرچے ناریل کے ساتھ پسے چاول آٹے کو، اس میں بھر کر بخار میں اسے پکا کر بھی کھایا جاتا ہے

الغرض اپنے اہل عرب اسلاف کے طرز پر، اہل نائطہ سمندر میں پائے جانے والی، ہر وہ مخلوق کھاتے پائے جاتے ہیں جس کے کھانے سے شریعت نے انہیں منع نہیں کیا ہو۔ عربوں کی مرغوب ھمور مچھلی، آل عرب اہل نائط کی بھی پسندیدہ مچھلیوں میں سے ایک ہے گویا ہزار بارہ سو سال قبل مختلف ساحل سمندر پر آباد اہل نائطہ قوم شروع زمانے سے ہی، اکثر سمندری مخلوقات سے محظوظ ہوتی آئی یے۔

پانچ سات دیے قبل چھوٹی ناؤں یا بوٹ میں مچھلی پکڑنے جاتے تھے اس لئے برساتی موسم میں سمندری موجوں کی طغیانی کے چلتے، مچھلی پکڑنا مفقود ہوتا تھا اسلئے برساتی موسم میں، استعمال کے لئے جہاں تازہ مچھلی کو نمک پاش سوکھا کر، محفوظ رکھا جاتا تھا، وہیں پر اہل یمن عرب جد امجدکے وطیرے کے طور، اہل نائطہ تازہ مچھلیوں کی قاشوں کو نمک پاشی کرتے ہوئے، بڑے بڑے مئی کے بنے مخصوص مرتبان میں جسے برنی (چھوٹے سائز مرتبان) یا بویام بڑے سائز مرتبان) کہا جاتا تھا،

اس میں محفوظ رکھتے تھے۔ اور بارش کی دنوں میں تازہ مچھلی کی ماورائیت کی کمی ہوری ہوتی تھی۔ بھٹکل ان دونوں سائز کے مرتبانوں پر دو مختلف بھائیوں کے خاندان برنی خاندان اور بویاملی خاندان نہ صرف آباد ہیں بلکہ بویوملی خاندان کی اہل نائطہ کے ایک چشم و چراغ نے چائینا میں قائم اپنی تجارتی کمپنی کا نام بھی بویامبلی انٹرنیشنل رکھا ہوا ہےالغرض اھل نائطہ قبیلے نے، اپنے جد امجد آل عرب کے،سمندری مخلوقات کھان پان کو خود استعمال کر دکھاتے ہوئے، ساحل سمندر آباد برادران وطن تک کو انہیں کھانے مائل کیا تھا

وائلڈ لیزارڈ یا گھوران
اہل عرب میں اس ریگستانی چھپکلی نما مخلوق کو کھانےکا رواج جو ہے وہ ہزار بارہ سو سال سے، عرب کلچر روایات سے دور رہنے والے اہل نائطہ قبیلے میں زمانہ قدیم سے، اسکا شکار کر کھانے کا رواج پایا جاتا ہے۔ عربوں کی ایجاد جنگ و حرب میں استعمال ہونے والی غلیل کے طرز پر، درخوں کی مخصوص ساخت ٹہنیوں پر ربڑ باندھ کر، بنائےجانے والی چھوٹی غلیل سے، زمانہ قدیم سے پرندوں کا شکار کر کھانے کا عربی النسل آبائی شوق ہم اہل بھٹکل میں بھی زمانہ قدیم سے پایا جاتا تھا۔

اسی عربی شکار شوق پورا کرنے جب ہم بچپن میں جنگل و ساحل سمندر صحراء جاتے تھے تو ریگزاروں پر دوڑتی پائی جانے والی گھوران کو شکار کر گھر لا، اسے کھانے کا بچپن کا شوق آج خلیج کے ملکوں میں، اپنے معاشی سفر دوران،اپنےبچپن کےپرندے و گھوران شکار کو، اپنے جد امجد عرب آل کی وراثت کے طور پانے کا راز ہم پر اب آشکار ہوا ہے۔ مخصوص پرندوں خو اور ان چھپکلی ننانوے گھرانے کا شکار کر لگانے کے شوقین عرب شہزادے پاکستان و افغانستان کے صحراؤں میں اکثر مچان باندھتے شکار کھیلتے پائے جاتے ہیں
ایک اور عرب اقدار کی چیز کا تذکرہ یہان نہ کرنا مناسب نہیں لگتا۔ عربوں میں زمانہ قدیم سے، زیتون کے دانوں کو نمک پانی میں محفوظ رکھ کھانے کا رواج ابھی تک پایا جاتا ہے۔ ہزار بارہ سو سال قبل بھارت کے ساحلوں پر آباد ہم اہل نائط قوم کو اپنے آبائی نمک پانی والے زیتون کی کمی صدا محسوس ہوتی تھی

۔ اسی ننکانہ پاش زیتون کی کمی کو پورا کرنے کے لئے، ہمارے جد امجد بزرگوں نے، یہاں جنوب بھارت کے اس جنگللاتی سرزمین پر،ندی نالوں کے کنارے،خود رو اگنے والے، انجیر فگس کی ذات والے پھل، جسے مقامی زبان میں رمبٹ کہا جاتا ہے، نمک پانی میں محفوظ رکھ،مہینوں استعمال کرتے ہوئے، عرب اقدار والے زیتون کی کمی پوری کی جاتی تھیں

الغرض ہزار پندرہ سو سال قبل بھارت کے مختلف ساحلوں پر آباد ہم اہل نائطہ، آل عرب لوگوں نے،اپنے عرب اقدار و روایات کو، ابھی تک برقرار رکھنے کی سعی کی ہوئی ہے۔ کاش کہ آل عرب اس اہل نائطہ قوم کے حالات واقدار سے عرب قوم کو بھی کوئی متعارف کرائے۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں