ملک بھر میں ایک جانب اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور کررہی ہے کہ حکومتی حلقوں اور غیر جانبدار لوگوں 117

اب ایسے نہیں چلے گا !

اب ایسے نہیں چلے گا !

ملک میں ڈیفالٹ کے خطرات بڑھتے ہی جارہے ہیں ، حکومت عوام کو کفایت شعاری کا درس دے رہی ہے اور خود گل چھرے اڑانے میں لگی ہوئی ہے ،ملکی معیشت نزع کی حالت میں ہے اور قومی خزانہ شہ خرچیوں میں لٹایا جا رہا ہے ، اس بری حالت میںبھی پانچ پانچ کروڑ روپے کی 165 لگژری گاڑیاں خرید ی جارہی ہیں،ملک بھر میں تاجر برادری ایل سیز نہ کھلنے کے باعث رو رو کرہلکان ہو رہے ہیں

لیکن تاجر برادری کیلئے ایل سیز کھولنے کے بجائے حکمران اپنی مہنگی ترین گاڑیوں کے لئے ایل سیز کھولنے کا گرین سگنل دیے رہے ہیں،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت کو ملکی معیشت سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ، وہ اپنی خواہشات پوری کرنے کیلئے معیشت کا جنازہ خود ہی نکالنے پر تلی ہوئی ہے۔
ملک میں معاشی بدحالی کوئی اچھی بات نہیں ہے ،مگر اس ملک میں معاشی بدحالی اور ڈیفالٹ پر ہی سیاست چل رہی ہے ،اپوزیشن ہر روز ثابت کرنے میں کوشاں ہے کہ حکومت کے پاس چند روز کے ذخائر رہ گئے ہیں اور اس کے بعد خدانخوستہ ڈیفالٹ کر جائے گا ،اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو ایسا ہی نظر آتا ہے

جبکہ حکمران صرف ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیںکہ ملک کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا ،حزب اقتدار اور حزب اقتدار میں ملک ڈیفالٹ ہونے پربیان بازی تو جاری ہے ،مگر دونوں جانب سے ان مسائل کا کوئی حل سامنے آرہا ہے نہ ہی کسی معاملے پر کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہاہے ،حکومت اور اپوزیشن ہر ایشو پر سیاست چمکا کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دیوار سے لگانے میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
ملک کا کسی کو خیال ہے نہ ہی عوام کی کوئی پرواہ ہے ،کاش حکمران بیرونی آقائوں کی خشنودی کرتے رہنے کے بجائے عوام کے مستقبل بارے سوچیں، کاش کوئی عوام کو ڈیفالٹ سے ڈرانے کے بجائے لو گوں کو بتائے کہ ہمارے پاس دنیاں کی ہر نعمت موجود ہے اور ہمیں باہر سے کچھ بھی منگوانے کی ضرورت ہی نہیں ہے

،ہمیں خود انحصاری کی عادات اپنانا ہو گی ،ہمیں دوسروں کی جانب دیکھتے رہنے اورگداگری کرتے رہنے کے بجائے اپنے وسائل میں گزارا کرنا ہوگا ،ہمیں اپنی عیاشیوں کو ترک کرنا ہو گا ،حکمران جب تک عوام سے قربانی مانگتے رہنے کے بجائے خود قربانی نہیں دیں گے ، اپنے اخراجات میں کمی نہیں لائیں گے

اور بیرون ممالک سے لگژری گاڑیاںمنگواناترک نہیں کریں گے ،ملک وعوام ایسے ہی معاشی بحرانوں اور ڈیفالٹ کے خطرات میں گھرے رہیں گے۔یہ کیسی بے حسی ہے کہ ایک طرف عوام سستے آٹے کے حصول میں بے موت مررہے ہیں تو دوسری جانب حکمران کی عیاشیاںہی ختم ہونے کانام نہیں لے رہی ہیں ، حکمران ڈیفالٹ سے بچنے کے نام پرجہاں کشکول تھامے نگر نگر گھوم رہے ہیں

وہیں ملنے والی خیرات سے ملک بچانے کے بجائے لگژری گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، ملک کو کب تک قرضوں اور بھیک مانگ کر امداد پر چلایا جاسکتا ہے ، لیکن وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ میں مانگنا نہیں چاہتا ،مگر بہت مجبوری ہے ،اس مجبوری کے باعث ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ جنیوا میں امداد کیلئے کوشاں ہیں

اگر انہیں آئی ایم ایف اور دیگر ڈونرز کچھ رقم امداد اور کچھ قرض دے بھی مل بھی جائے تو کیا پا کستان کے مسائل حل ہوجائیںگے؟ہمارے حکمرانوں میں صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ملک کو غیر ملکی امداد اور آئی ایم ایف سے مدد ملنے کے باوجود مسائل کے بھنور سے نکال سکیں، یہ تو تکیہ ہی غیر ملکی ٹکڑوں پر کرتے ہیںاور جب بیرونی امداد کی شکل میں چند ٹکڑے ملتے ہیں تو انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے ،اپنی عیاشیوں پر صرف کردیا جاتا ہے ،یہ آزمائے ہوئے لوگ ہیں ،یہ ملک کو لاکھ دعوئوں کے باوجود بحرانوں سے نکال نہیں پائیں گے ،لیکن انہیں عوام پر مسلط کرنے والے ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں،
وہ بار بار وہی ناکام تجربات دہرائے جارہے ہیںجتنا چاہئے تجربات کیجئے اورآزمائے ہوئے عوام پر مسلط کیجئے ،اس کا نتیجہ ویساہی نکلے گا ،جیساکہ اس سے قبل نکلاتھا ، یہ ملاح قابل اعتبار نہیں ہیں ،یہ کشتی بیچ دریا ڈبوئیں گے، کشتی جب ڈوبتی ہے تو مکمل ہی ڈوبتی ہے، ایسا نہیں ہوتا ہے کہ پچھلا حصہ ڈوبے اور اگلا بچ جائے،اس کشتی میں سے بچنا کسی نے بھی نہیں ہے، باقی بابوئوں کی خیر ہو، اْنہوں نے تو عوام کو سائیں بنا کر اس حالت میں ہی رکھناہے،لیکن یہ سب کچھ اب ایسے نہیں چلے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں