ملک بھر میں ایک جانب اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور کررہی ہے کہ حکومتی حلقوں اور غیر جانبدار لوگوں 31

سیاسی رسہ کشی بند کی جائے !

سیاسی رسہ کشی بند کی جائے !

ملک کے سنگین اور شدید مسائل کا شکار ہونے کے باوجود حکمران اتحاد اور تحریکِ انصاف کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا سلسلہ جاری ہے،ہر دو طرف سے ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولا باری کر کے ثابت کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں اور اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے، تحریک انصاف قیادت کا کہنا ہے کہ پاکستان دیوالیہ پن کی جانب تیزی سے بڑھ تا جارہا ہے،

سازش کے ذریعے لائے جانے والوں کی معیشت کے بارے میں تیاری نہیں تھی، یہ اقتدار میں اپنی چوری چھپانے آئے ہیں،جبکہ حکمران قیادت کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کی نااہلی کے باعث ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو ا ہے، ملک کو درپش بحرانوں کی ذمہ دار سابق حکو مت ہے ،ان دونوں رہنمائو کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ انھیں ملکی صورتحال اور عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے ،یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے ذریعے صرف خود کو اچھا اور سچا ثابت کرنے میں ہی کوشاںہیں۔
یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے کہ ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے اور سیاسی قیات ایک دوسرے کو گرانے میں لگی ہوئی ہے، اس وقت ساری سیاسی قیادت کو اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر ملک کے وسیع تر مفاد میں اکٹھی ہو کر ریاست کے استحکام کے لیے حکمتِ عملی تشکیل دینا چاہئے

لیکن ملکی سیاست میں سیاسی رسہ کشی کے ذریعے قومی مفاد کو ذاتی مفادات پر قر بان کیا جارہا ہے، ملک میںسیاسی کشیدگی دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے اور اس کی وجہ سیاستدانوں کا خودساختہ سیاسی الجھاؤ ہے ، سیاسی قیادت جب تک اپنی سوچ قوم و ملک کی ترقی اور سلامتی کے ساتھ مربوط نہیں کریںگے، ملک کے حالات میں بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
یہ انتہائی پریشان کن بات ہے

کہ ہماری سیاسی قیادت کو ابھی تک احساس ہی نہیں ہورہا ہے کہ ان کے رویوں اور کردار کے باعث ساراسیاسی ماحول پریشان ہے اور جو نظام کے تحت چلنا چاہ رہے ہیں، وہ بھی بے بس نظر آرہے ہیں، اس صورتحال کا حل عام انتخابات ہیں،لیکن حکمران اتحاد عام انتخابات کی جانب جانے کیلئے تیارہی نہیں ہے ،تحریک انصاف قیادت مسلسل عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں ،حکمران قیادت کو دیر سویر عام انتخابات کی جانب آناہی پڑے گا ،کیو نکہ تحریک انصاف اپنی دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کررہے ہیں ،اس سے حکمران اتحاد کے ساتھ اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا ، اگر چہ مقتدر حلقوں نے سیات سے تعلقی کا اظہار کرکے خاموشی سادھ لی ہے ،لیکن، سیاسی قیادت ابھی بھی ان کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔
اس تذبذب سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی صورتحال میں ملک کی پہلے سے ہی بدحال معیشت مزید خرابی کی طرف جارہی ہے، اگر یہ صورتحال مزید تعطل کا شکار رہی تو پھر حالات بے قابو ہونے کا خدشہ ہے،اس صورتحال میں پہلا فرض سیاسی قیادت پر آتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی پختگی کا مظاہری کریں اور اپنے اختلافات کو مذاکرات کی میز پر لا کر کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں

،لیکن اس کی کوئی توقع دور تک نظر نہیں آرہی ہے، دوسری صورت میں اداروں پر ذمہ داری آتی ہے کہ وہ آئین و قانون کو حرکت میں لائیں اور بلا تفریق آئین و قانون کی پاسداری کے لئے کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے انصاف پر مبنی اپنا کردار ادا کریں،اس میںکسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے ،مگر اداروں کی تکریم تو بحال ہونی چاہیے اور اس میں جس کی جتنی ذمہ داری بنتی ہے ،اسے پوری کرنی چاہیے اور عوام کو فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہئے، یہ ہی اب آخری حل رہ گیا ہے۔
اس وقت قوم کے پاس دو راستے ہیں، پوری قوم کو بشمول اداروں کے مل کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے آئین و قانون کی حکمرانی کی طرف جانا ہے یا تذبذب کا شکارہی رہنا ہے،ملک سے سیاسی و معاشی عد م استحکام دور کرنے کیلئے عوامی عدالت میں جانا ہو گا ،اس کیلئے اصول و ضا بطے بھی طے کرنا ہونگے اور پھر اس پر عمل کو یقینی بنانا ہوگا، اس بڑھتی کشیدگی سے تب ہی چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے

،سیاست میںسیاسی رسہ کشی کے لیے بہت وقت پڑا ہے ،لیکن ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، اس میں بہتری لانا ہی سب کی اولین ترجیح ہونا چاہیے،اس سلسلے میں تمام سیاسی واداراتی قیادت کو آگے بڑھ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، تبھی ملک کو درپیش مسائل حل کر کے عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا جاسکے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں