65

سیاسی بساط پر مہروں کا کھیل!

سیاسی بساط پر مہروں کا کھیل!

اس وقت حکمران اتحاد اور تحریک انصاف کی سیاسی کھینچا تانی کے نتیجے میں ملکی نظام تلپٹ ہوتا جا رہا ہے، پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سے سیاسی حلقوں میں اس بات پر گفتگو ہورہی ہے کہ کیا تحریک انصاف قبل از وقت انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجائے گی ،جبکہ عمران خان کے تمام دبائو کے باوجود حکومت اپنے وقت پر انتخاب کرانے کے فیصلے پر ڈٹی ہوئی ہے،گویا سیاسی بحران گہرا ہوتا چلا جارہا ہے

، انتشار اور تصادم کی شدت بڑھتی جا رہی ہے، قومی زندگی پر سیاسی ٹکرائو کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں،لیکن سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی بحالی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی بھی بہترقدم سامنے نہیں آرہا ہے،سیاست کی بساط پرمہروں کا کھیل جاری ہے اور عوام خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث معیشت بھی مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے، قوم حالات کی اصلاح کے لیے اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں، جبکہ جمہوریت کے دعویدار حکمراں ملکی حالات میں بہتری لانے کے بجائے جنگ اقتدار میں مصروف نظر آتے ہیں،عوام کا کوئی خیال ہے

نہ ملک کے بد تر ہوتے حالات کااحساس کیا جارہا ہے، ایک کے بعد ایک دعوئے کرکے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا ہے ،وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ایک بار پھر بیرونی میڈیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کا خواب ضرور پورا ہوگا، انتخاب اپنے وقت پر ہوں گے، اس کی وزیراعظم کے بڑے بھائی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے بھی تائید کی ہے کہ انتخابات اپنے وقت پرہی ہوں گے، ملک کے سیاسی و معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں ، لیکن حکمران اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار ہیں نہ عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت حکمران اتحاد کیلئے کڑا امتحان ہے ،لیکن اتحا دی قیادت اپنی ذمہ داریوں سے عہدا برا ہو نے کے بجائے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں لگی ہے ،حکمران قیادت کی ذہنی پستی کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم کے بیٹے اپنی ہی جماعت کے وزیرخزانہ کو معاشی جوکرقرار دیے رہے ہیں، اپنی حکومت کی پالیسی کی ناکامی کا ملبہ اپنے ہی ساتھی پر ڈالا جارہا ہے، جبکہ ان کے جانشین جو ان کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے آنے کے بعد معاشی تباہی میں تیزی آئی ہے،

اس ایک مسئلے نے ہر شعبے کو ہی متاثر کیاہے،لیکن حکمران اتحاد کے پاس کوئی حل ہے نہ اس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ ہے،اتحادی قیادت ملک و عوام کے مسائل کے تدار ک کیلئے کوئی حکمت عملی بنانے اورکوئی منصوبہ سازی کرنے کے بجائے ڈنگ ٹپائو پروگرام پر عمل پیراں بیرونی امداد کیلئے کشکول تھامے دربدر دھکے کھا ئے جارہی ہے ۔اس صورتحال میںہر کوئی زبانی طور پر کہتا نظر آتاہے

کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی مسئلہ نمبر ایک ہو گیا ہے، عالمی ادارے بھی اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ بہت بڑی آبادی کے لیے غذائی ضرورت بھی پوری نہیں ہورہی ہے، یہ صورت قحط یا خشک سالی کی وجہ سے نہیں، بلکہ عالمی نظام نے زر قوت خرید اتنی کم کردی ہے کہ غریب عوام اپنی ضرورت کی اشیا حاصل نہیں کرپارہے ہیں، اس بحران سے نکلنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے

، لیکن ہماری قیادت اجتماعی دانش و بصیرت سے اتنی محروم ہے کہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سعد رفیق بھی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ موجودہ جمہوریت چیچک زدہ ہے، سیاست پر کچھ خاندانوں کا قبضہ ہے اور یہ سیاسی قبضہ گروپ معاشی بحران کے خطرناک دور میں بھی سیاسی انتشار برپا کرکے حالات کو مزید خراب کررہاہے، سیاسی قوتیں بے اصول محاذ آرائی کے ذریعے نہ صرف خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہی ہیں،بلکہ سیاسی بالادستی کے تصور کو بھی کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
اس صورت حال کا تسلسل اور پھیلائو کسی طور بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام حلقے مل بیٹھ کر اپنے ملک کے مفادات کے لئے سوچیں، سیاست کی بساط پرمہروں کاکھیل کھلنے کے بجائے ملکی معیشت میں بہتری لانے اور سیاسی استحکام کی تدابیر کریں، اس ملک کے قیام کے لئے لاکھوں لوگوںنے جانی و مالی قربانیاں دی تھیں، کیا اسے مشکل صورتحال سے نکالنے کے لئے ذاتی انا اور انفرادی و گروہی مفادات پس پشت ڈالے نہیں جاسکتے ؟ سب کچھ ہو سکتا ہے اور سب کچھ کیا جاسکتا ہے ،بس اپنی سوچ بدلنے اور اپنے اندر حب الوطنی جگانے کی ضرورت ہےا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں