32

پاسپورٹ آفس شیخوپورہ مافیاز کے ہاتھوں میں

پاسپورٹ آفس شیخوپورہ مافیاز کے ہاتھوں میں

تحریر: محمد اشفاق بٹ
شیخوپورہ

قارئین کرام ! آج ہم بات کریں گے شیخوپورہ پاسپورٹ آفس کی- پاکستان کی ہسٹری ہے کہ یہاں پر کوئی بھی ادارہ وفاقی ہو یا صوبائی کرپشن سے پاک نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہم اس بات سے مشہور ہے کہ آئے روز پاکستان کے کسی نہ کسی ادارے کے سربراہ سے لے کر چھوٹے اہلکاروں کی کرپشن کے قصے میڈیا پر رونما ہوتے رہتے ہیں جس سے ہماری دنیا بھر میں جگ ہنسائی معمول بن چکی ہے

اور ان اداروں میں کرپشن کی وجہ صرف وہ ایک ادارہ نہیں ہوتا جس سے پکڑ کر کسی اہلکار کو پابند سلاسل کر دیا ہے جائے اس ادارے میں سب سے پہلا رول ضلع کے اعلی افسران کا ہوتا ہے دوسرا رول میڈیا پرسن کا ہوتا ہے ادارے کے سربراہ اور میڈیا اگر چاہیں تو کسی بھی ادارے میں پھر چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی میں کرپشن کرنا آسان نہیں ہوگا ضلع شیخوپورہ میں بھی وفاقی حکومت کی طرف سے پاسپورٹ آفس کا افتتاح کیا گیا

جس کا مقصد عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنا تھا جو لوگ اپنے پاسپورٹ بنانے کی خاطر لاہور جایا کرتے تھے ان کی بہتر سہولیات کے لئے وفاقی حکومت نے ضلع شیخوپورہ میں بھی پاسپورٹ آفس دے دیا مگر یہاں کا ماحول دیکھ کر با ضمیر آدمی شرمندہ ضرور ہوگا شیخوپورہ پاسپورٹ آفس میں اس وقت ایک مافیا کا راج ہے ٹاؤٹ سسٹم نے شیخوپورہ کی عوام کو اس قدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ عوام کو سہولت دینے کے چکر میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے اس میں اگر کہا جائے کہ صرف محکمہ پاسپورٹ آفس کے افسران اور اہلکار ملوث ہیں تو یہ جھوٹ ہوگا یہاں کا ماحول تو ایسا ہے محکمہ پاسپورٹ آفس کے افسران نے اپنے اہلکاروں کی مدد سے آفس کے باہر ٹاوٹ مافیا کی لائن لگا رکھی ہے

جو سادہ لوح عوام کو پاسپورٹ آفس کے گیٹ پر جانے سے پہلے ہی لوٹ لیتے ہیں سرکاری فیس اگر 4000ہزار ہے تو یہ لوگ لوگوں سے آٹھ اور دس ہزار روپیہ لے کر ان کے ٹوکن کرواتے ہیں عوام سے لوٹی گئی اس رقم کو ٹاؤٹ مافیا پاسپورٹ آفس کے اہلکاروں کو دیتا ہے جو افسران میں تقسیم کی جاتی ہے سب سے زیادہ مجھے شرم اس بات کی آرہی ہے کہ پاسپورٹ آفس کے افسران کی ٹاوٹی صرف سادہ لوگ نہیں کرتے بلکہ شیخوپورہ کی صحافت کے کچھ ذمہ دار بھی جو اپنے آپ کو صحافی بتاتے ہیں

وہ بھی ٹاؤٹ مافیا کے ساتھ محکمہ پاسپورٹ آفس کے افسران کی کرپشن میں برابر کے شریک ہیں دوسری طرف محکمہ پولیس کی بات کی جائے تو وہ بھی اپنی دھاڑی لگانے کے چکر میں روزانہ کی بنیاد پر پاسپورٹ آفس کے باہر چکر لگاتے ہیں اور وہاں سے ایک یا دو ٹاؤٹ کو پکڑا اور اپنی دہاڑی سیدھی کی اور چلتے بنے چلو افسران کا کام ہے اپنے اہلکاروں کی مدد سے یہاں پر جتنی ہو سکے کرپشن کر نی مگر صحافی حضرات سے میری گزارش ہے

کہ وہ 500 ہزار کے چکر میں شیخوپورہ کی صحافت کو بد نام مت کریں بلکہ اس محکمے کی کالی کرتوتوں کی نشاندہی کر کے شیخوپورہ کی عوام کے لیے آسانی پیدا کریں اور محکمہ کے افسران کو عبرت کا نشان بنانے میں اپنا کردار ادا کرے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں