51

بحثیت معلم طالب علم کی کردار سازی

بحثیت معلم طالب علم کی کردار سازی

تحریر: ڈاکٹر محمد غیاث

طالب علم کی نشونما اور کردار سازی میں تعلیم، نصاب، ماحول، استاد اور خاندان کا بہت عمل دخل ہوتا ہے کسی ایک چیز کو انسان کی مکمل کردار سازی میں اس کا شریک نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ یہ تمام چیزیں مل کر ہی انسان کی کردار سازی کرتی ہیں۔جیسے ایک عمارت کو تیار کرنے کے بعد آخر میں رنگ و روغن (Furnish) کر کے مزید خوبصورت بنایا جاتا ہے،اسے نکھارا جاتا ہے بالکل اسی طرح طالب علم کو پڑھانے کے علاوہ بھی اس کی شخصیت کی دیگر صلاحیتوں میں بھی نکھار لایا جاتا ہے۔

جس میں اس کی کردار سازی، اس کے ساتھ دیگر مباحث پر بات کرنا، اسے معاشرے کا ایک باوقار شخص بنانا وغیرہ وغیرہ ایک اچھے استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن آج کے اساتذہ اکرام میں اس چیز کی کمی پائی جاتی ہے، انہوں نے تعلیمی نظام میں اصل مرکز سلیبس کی تکمیل کو مقرر کر لیا ہوا ہے اور اس کی بنیاد پر اچھے نتائج جبکہ تعلیمی نظام کے اندر جو شے مرکز ہوا کرتی ہے وہ توحید کے ساتھ ایک استاد کی شخصیت ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ بچوں کی کردار سازی کر کے ان کے اخلاق کو سنوارتا ہے

اور معاشرے کو ایک باوقار شخص تیار کر کے فراہم کرتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ایک مسلمان کے ہر عمل کا مرکز ”توحید” ہونا چاہیے ہر کام اللہ کی رضا کے لئے کرنا چاہیے بحیثیت مسلمان ہمارے ہاں اس حوالے سے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ایک دین اسلام ہے جبکہ ایک فکر اسلام ہے اور پھر کل اسلام کا مرکز توحید ہے لہذا ہمیں توحید سے مضبوطی کے ساتھ جڑا رہنا چاہیے۔

اگر غور کریں تو ہر چیز کا جوڑا ہے دو آنکھیں ہیں دو کان ہیں اسی طرح دو ہاتھ ہیں تو ٹانگیں ہی دو بازو ہیں لیکن دل جسم کا وہ جز ہے جس کا دوسرا کوئی جوڑا نہیں ہے۔ وہ ایک ہی ہے اور یکانیت ہمیں توحید کا درس دیتی ہے۔اس میں صرف اللہ تعالی کی ذات وحدہٗ لاشریک کی محبت پیدا کی جائے۔

چونکہ ”استاد” تعلیمی نظام کا مرکز ہوا کرتا ہے جیسے اللہ رب العزت نے انسان کے تعلیمی نظام کے نفاذ کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کی صورت میں استاد بنا کر اس دنیا میں بھیجے اور ان کے ذریعے کامل رہنمائی ہم تک پہنچی۔ اس حوالے سے قرآن عظیم الشان کی سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
”اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کے سامنے تیری آیات پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے۔ اور وہ انہیں پاک کرے یقیناً تو غالب حکمت والا ہے۔’اسی آیت مبارکہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو استاد علم کے ساتھ ساتھ طالب علم کی روحانی تربیت بھی کرتا ہے جس کیلئے اسے بعض جگہ پر سب چیزوں کی اور بعض جگہ پر کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی استاد جب لیکچر دیتا ہے

جب تربیت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس طالب علم کے اندر کیا کمی ہے، کیا کمزوری ہے۔ اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس حساب سے اپنے طلباء و طالبات کا تزکیہ کرتا ہے۔ یہ سب تعلیمات ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے مل جاتی ہیں کیونکہ جہاں وہ رحمۃ للعالمین ہیں وہاں وہ معلم للعالمین بھی ہیں اور ان کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی ﷺ ہے:
”انی بعثت معلما”
ترجمہ: ”بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے”
بحثیت معلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کو افراد تیار کر کے دیے۔ یعنی مرکز کی تعیناتی میں ہمارا فرق آ رہا ہے۔ آج کا دور ریسرچ کا دور ہے جس کی بنیاد پر مغرب ترقی کر رہا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔ بات کی جائے پاکستان کے تعلیمی نظام میں ریسرچ ورک کی تو پاکستان میں جو بھی ریسرچ ہوتی ہے بعد میں یا تو کسی لائبریری میں سجا دی جاتی ہے یا پھر ہمیں کسی فٹ پاتھ پر وہ سیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے

اس عملی صورت کو دیکھتے ہوئے اس تحقیق کو کام میں نہیں لایا جا سکتا۔ ریسرچ کرنے کی جو ضرورت تھی ہم اس ضرورت اور مقصد کو پورا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کتابیں نہیں بلکہ افراد تیار کیئے ہیں یعنی آپ نے انسانی شخصیات کی تربیت فرمائی اور انسانی شخصیات نے ان کے علم کو ان کی سوچ کو ان کی فکر اور نظریات کو آگے پھیلایا ہے۔ اور آج ہم نے خود کو کتابوں کے مخصوص علم تک محدود کر دیا ہوا ہے

حالانکہ کتاب سے محدود علم جبکہ استاد سے کئی لوگوں اور تاریخ کا علم حاصل ہوتا ہے جیسے وہ آپ کو حوالے دیتا ہے۔کتابوں سے باہر کل کائنات اور آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آپ کو علم کے حصول کے لیے اپنی ذات کو صرف سلیبس کی کتابوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ آپ کو کائنات کی ہر شے سے سیکھنا چاہیے اور مسلسل سیکھتے رہنا چاہیے۔ آپ راستے میں چلتے ہوئے چیزوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اللہ رب العزت کے نظام کو دیکھ کر اس سے سیکھ سکتے ہیں

، لوگوں کے چہرے پڑھنا سیکھیں، رویوں کی پہچان،اخلاص کی پہچان کو پہچاننا سیکھیں۔ انسانوں سے ملاقات کے وقت ان کے تاثرات دیکھیں کیونکہ چہرے کے تاثرات ہمارے لیے آئینہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چہرہ ہمارے رویے کا اظہار کر دیتا ہے انسانوں سے ملاقات کے وقت ہمیں چہرے کے تاثرات سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سے افراد آپ سے کب بیزار ہو رہے ہیں اور کون سے افراد خندہ پیشانی سے مل رہے ہیں۔ شخصیت سازی کی کانٹھ چھانٹ میں ایک طالب علم کے لیے یہ سارا مطالعہ بھی بہت مفید ہوتا ہے

جس سے اسے استفادہ کرتے رہنا چاہیے۔ اور جہاں کسی کو سمجھنے میں دقت محسوس ہو تو اسے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ان کی سیرت سے سبق نکال کر ان پر عمل کرنا چاہیے۔ مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں سے خندہ پیشانی سے ملا کرتے تھے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے ملتے تو لوگ آپ کو چاہتے آپ سے محبت فرماتے آپ سے عشق فرماتے آپ کی یہ عادت مبارکہ لوگوں کے دلوں کے پر اثر انداز ہوتی تھی۔ فتح کا تعلق دل سے ہے دماغ سے نہیں

دماغ تو پلس مائنس کی گیم کرتا ہے یہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ کسی کو فتح کرنا چاہتے ہیں کسی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں کسی کی توجہ اور محبت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے دل کا کمال ہوتا ہے آپ دل کے جتنے اچھے ہیں،جتنے مخلص ہیں اتنے لوگ آپ کی طرف زیادہ راغب ہوں گے آپ سے زیادہ محبت کریں گے اور آپ کی چاہت زیادہ رکھیں گے استاد اقبال بھی زیادہ تر عشق،جنون اور محبت کی کیفیات کی بات کرتے ہیں:
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اگر یہ عشق و جنون نہیں ہوگا تو آپ دماغ سے فیصلہ کریں گے اور دماغ تو کبھی بھی کسی بھی مذہب کی تعلیمات سے متاثر ہو سکتا ہے اس لئے اپنے ایمان کی مضبوطی اور اللہ تعالی سے محبت کے لئے اپنے اندر یہ عشق اور جنون کا جذبہ پیدا کرنے ضرورت ہے۔

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصورات
اقبال نے دو تصورات کو بہت واضح کیا ہے جن ایک تصور خودی اور دوسرا تصور عشق ہے۔ اقبال کی شاعری سے پہلے ان دونوں کو معیوب سمجھا جاتا تھا لفظ عشق سے مراد صرف شہوت لی جاتی تھی جب کہ اقبال نے اس لفظ کو گویا اس معنیٰ سے نکال کے غسل کروا دیا اس کو آپ نے صحیح معنوں میں استعمال کیا اسی طرح لفظ خودی کو بھی انا،غرور اور تکبر کے معنیٰ میں ہی لیا جاتا تھا اقبال نے اس سے بھی نکال کے صاف کیا وہ او جامع انداز میں فلسفہ خودی کو بیان کیا۔
خودی کو مارنے کا تصور رہبانی تصور ہے جو کہ زیادہ تر ہندو ازم میں پایا جاتا ہے اسلام کا وہی تصور ہے جو اقبال نے اپنے تصور خودی میں پیش کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں