عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 37

ستم گر سے اُمید وفا!

ستم گر سے اُمید وفا!

سپریم کورٹ دو صوبوں میں الیکشن کے حوالے سے کیس کی سماعت کر رہی ہے ،جبکہ حکومت سپریم کورٹ کے قواعد میں اصلاحات کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، اس میں سب سے اہم نکتہ ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار کو ختم کرکے اسے تین سینئر ترین ججوں کو سونپا جائے ،حکومت ان اصلاحات کے لئے بہت تیزی دکھا رہی ہے، ایک ہی دن کابینہ نے ان اصلاحات کی منظوری دی، اْسی دن یہ قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں، اگلے دن قائمہ کمیٹی قانون نے بھی اس کی منظوری دے دی ،یہ سب کچھ بہت تیزی سے ہو رہا ہے، مگر اس پہلو پر سوچنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں ہے کہ ملک میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، جوبے یقینی کی فضا ہے، اْس میں ٹھہراؤ کیسے آئے گا۔
ہر دور اقتدار میں حکومت کی اپنی تر جیحات رہی ہیں ،اتحادی حکومت کی بھی اپنی تر جیحات ہر عمل پیراں ہے ،اس حکومت کی تر جیحات میں اپنے خلاف مقدمات کا خاتمہ کرنا اور زیادہ سے زیادہ دیر اقتدار میں رہنا ہے ،اس کیلئے سارے حربے آزمائے جارہے ہیں ، ایک طرف انتخابات ے راہ فرار اختیار کی جارہی ہے تو دوسری جانب قانون سازی کی آڑ میں معزز عدلیہ جیسے ادارے میںبھی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

،اس پر سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ممکنہ ردعمل سامنے آسکتا ہے،ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس اور اْن کے ہم خیال جج حضرات پارلیمنٹ کی ایسی قانون سازی کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے کر ایسے کسی قانون کو ہی ختم کردیں، اس سے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے آسکتے ہیں اور یہ امر بحرانوں میں گھرے پاکستان کو ایک اور بڑے بحران کی جانب دھکیل سکتا ہے۔
یہ پاکستان کی بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اتحاد کی ضرورت ہے، ہم تقسیم در تقسیم اور نت نئے بحرانوں کا شکار ہو رہے ہیں،

حکمراںاتحاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ملک کونئے بحرانوں میں دھکیلنے سے گریز کرے ،لیکن اس کے برعکس اتحادی حکومت مکمل طور پر محاذ آرائی کے موڈ میں ہی دکھائی دیے رہی ہے ،ہر طرف سے الزامات کی دھول اڑائی جا رہی ہے ، داروں کے اعلی عہدیداروں کو کھلے عام نام لے کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، ایسے میں اعلی عدلیہ پر ہی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس اُڑتی دھول کاسد باب کرے ، بصورت دیگر اصلاحات کے نام پر یہ کوشش ،اداروں میں بڑھتی محاذ آرائی سے شدید ٹکرائو کے خطرات کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔
ملک کی سیاسی قیادت کو بھی چاہئے کہ ملک و عوام پر کچھ تو رحم کھائیں ،اس وقت ساری عدالتیں سیاسی مقدمات سے بھری پڑی ہیں ،اس کے باعث عام آدمی کی کہیں شنوائی نہیں ہورہی ہے ،ایک کے بعد ایک سیاسی مقدمے کے ذریعے عدالتوں کاوقت و توانائی ضائع کی جارہی ہے ،ایک طرف سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے بجائے عدالت میں لایا جارہا ہے تو دوسری جانب عدلیہ کو بے جا تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے ،ہمارے سیاستدان نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ وقت کا پہیہ کبھی ساکت نہیں رہتا ہے ،اس نے وقت کے ساتھ چلتے رہنا ہے ،اگر کل تحریک انساف حکومت تھی تو آج پی ڈی ایم بر سر اقتدار ہے ،کون جانے آئندہ کون حکمران ہو گا ،لیکن جیسا کروگے ،ویسا ہی بھرنا پڑے گا۔
گزشتہ دور حکومت میں جو کچھ ہوتا رہا ہے ،موجودہ حکومت بھی وہی کچھ کررہی ہے ،ہر دور حکومت میں عام آدمی کی کسی نے کو ئی خیال نہیں کیا ہے ،عام آدی کل بھی مسائل کی دلدل میں دھنسا تھا ،آج بھی انتہائی مشکلات کے عذاب سے گزررہا ہے ،جبکہ سیاسی قیادت نے عوامی مسائک کے تدارک کے بجائے سیاسی محاذ آرائی کا تماشا لگارکھا ہے ،کیا عوام محض تماشائی ہی بنے رہیں گے اور سیاست دانوں کے کھیل تماشے میں ہی الجھے رہیں گے ؟کیا عوام کو بھی اپنے کل کیلئے کوئی فکر نہیںکرنی چاہئے ؟

اگر سیاستدان عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کررہے تو کیا عوام کو بھی اپنے لئے خود کچھ نہیں کرنا چاہئے؟یہ سب کچھ ایسا ہی کب تک چلتا رہے گا،عوام کو اس اُمید کے بھنور سے نکلنا ہو گا ، اگر عوام اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم مفادپرست قیادت سے امید لگانا ہی چھوڑ دیں ، کیو نکہ ستم گر سے اُمید وفا رکھنا خود فریبی کے سو کچھ نہیں ہے ، اگر بار بار آزمائی قیادت کی خود فریبی سے عوام باہر نکل آئیں تو ان کے بہت سے مسائل خود بخود ہی حل ہو جائیں گے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں