عالمی سطح پربنتےبگڑتے رشتے،امن عالم قائم رکھنے، ممد و مددگار ہوسکتے ہیں 31

زکاة اسلامی نظام معشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی مانند اہم ہے

زکاة اسلامی نظام معشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی مانند اہم ہے

فقط
احقر
محمد فاروق شاہ بندری

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

زکاة سے غرباء کی امداد ہی نہیں غربت سے نجات بھی مطلوب ہےاسلامی نظام معشیت ایک سوچ کا نام ہے دراصل اسے ہم مسلمانوں کو اپنانا ہے۔خلیفہ ثانی عمر فاروق کی سوچ مطابق زکاةکو کچھ اس طرح مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے کہ آج زکاة لینے والا مسلمان اگلے سال صاحب زکاة بن جائے
زکاة کی اسلامی معاشرے میں اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ وصال نبی آخرالزمان محمد مصطفی ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ المسلمین بن گئے تھے تو اس وقت جہاں جھوٹے نبی کے دعویدار سامنے آتے ہوئے،

مختلف اقسام کے فتنے اسلامی سلطنت کے لئے مسائل پیدا کررہے تھے اس میں بعض قبیلوں کے امراء کی طرف سے زکاة کی رقم بیت المال میں جمع کرنے کے بجائے ،وہ خود غرباء میں تقسیم کرنا چاہ رہے تھے۔ایسے پرفتن دور میں بھی انتہائی برد بار خاموش طبع، نرم مزاج مشہور حضرت ابوبکر صدیق رض نے، زکاة وصولیابی مہم کے لئے، اتنے سخت احکام دئیے تھے کہ اگر کوئی بھی صاحب حیثیت رئیس قوم،اس کے حصے میں نکلنے والی زکاة اونٹ تعداد تو پوری دیتا ہے لیکن اونٹ کو باندھنے والی رسی دینے میں آنا کانی کرتا پایا جائے

تو ابوبکر صدیق خود اسلامی لشکر کے ساتھ اسکے اوپر چڑھائی کرتے ہوئے، پوری زکاة وصولیابی ترجیح دیتے پائے جائیں گے۔ مطلب صاف تھا اسلامی نظام معشیت اسلامی حکم زکاةسے مربوط تھا۔
اگر کسی تونگر کی حیثیت ایک کروڑ دو کروڑ بنتی ہے تو اس کی زکاة رقم ڈھائی سے پانچ لاکھ جو بنتی ہے اسکے تقسیم زکاة طرز عمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کم و بیش اتنی زکاةکی رقم تقسیم کی گئی ہوگی۔ لیکن جو رئیس وقت دو چار ہزار کروڑ یا اس سے بھی زیادہ کی ملکیت والا ہو اور اس کی تونگری کے لئے،

مسلم معاشرے کی نیابت بھی اس رئیس کو حاصل ہو تو، اسکی زکاة پندرہ بیس کروڑ سالانہ جو بنتی ہے وہ رئیس اپنے مال کی زکاة پورا پورا نکالتا اور تقسیم کرتا بھی ہے یا نہیں اس پر تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت، وقت کے جید علماء کرام کو ہونی چاہئیے بھی کہ نہیں؟

مانا کہ اس پرفتن دور ھند میں، جہاں بیت المال کا وجود ہی نہیں، وہاں اسلامی معاشرے میں نکالی جانے والی ہزاروں کروڑ سالانہ کی زکاة منظم تقسیم کرتے ہوئے اسلامی معاشرے میں غربت خاتمہ کی فکر ہونی چاہئیے بھی کہ نہیں؟ مانا کہ اسلامی حکومت کے بغیر یہ سب ممکن نہیں، لیکن کیا ہم ارباب حل و عقل معاشرہ کی دیگر ضروریات معاشرہ تکمیل کے لئے، نت نئے عنوان سے، وقت وقت سے کانفرنسیں اور سیمینآر منعقد کرتے بھی ہیں یا نہیں؟ کیا

مسلم معاشرے میں نکالے جانے والی سالانہ لاکھوں کروڑ زکاة کو نظم کے تحت پوری دیانت داری سے تقسیم کرتے ہوئے، مسلم معاشرے کی غربت و افلاس کو ختم کرنے کی فکریں ہونی بھی چاہئیے یا نہیں، کیا اس سمت آگہی پیدا کرنا بھی معاشرے کے تونگروں کی ذاتیات میں دخل اندازی قرار دے، اس سے مانع رکھ جائیگا؟ ان موضوعات پرتاب حل وعقل و تفکر کو کھل کر تبادلہ خیال کرنے کی ضرورت ہے وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں