یہ محاذ آرائی کب ختم ہو گی !
ہماری قومی سیاست میں جو ارتعاش پیدا ہورہا ہے، اس کی ڈوریاں اسی نواز شریف کے ہاتھوں میں ہیں کہ جسے ان کے سیاسی مخالفین لندن پلان کا نام دیتے ہیں ،اس لندن پلان کے تحت ہی جہاں انتخابات سے راہ فرا ر اختیار کی جارہی ہے ،وہیں سپریم کورٹ جیسے بڑے ادارے سے بھی متھا لگایا جارہا ہے ،یہ اداروں سے ٹکرائو کی سیاست بڑا ہی خطرناک فیصلہ ہے،اس کے نتیجے میں شہباز شریف نہ صرف گھر جائیں گے
،بلکہ مسلم لیگ (ن) حکومت کا بیڑا غرق بھی ہوجائے گا، طاقتوروں کا تو کوئی اعتبار نہیں، جانے کب آنکھیں پھیر لیں، ان کی دوستی اچھی نہ دشمنی ،انہیں کے بہکاوے میں مسلم لیگ( ن) مقبولیت کی اونچائی سے پاتال کی تاریکی میں گری ہے اوراب سپریم کورٹ سے ٹکرا کر اپنا مزید نقصان کرے گی ،حکمران اتحا د ہار کے ڈر سے انتخابات سے بھاگ رہے ہیں،یہ کتنی دیر تک انتخابات سے بھاگتے رہیں گے ؟الیکشن تو بالآخر کروانے ہی پڑیں گے۔ملکی سیاست میں جتنا آج انتشار ہے،اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے
،اتحادی حکومت ایک طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکاری ہے تو دوسری جانب فیصلے کے خلاف پارلیمان میں قرارداد منطور کروائی جارہی ہے ،قومی اسمبلی اپنی قرارداد میں بھلا وزیراعظم کو کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے پر عمل نہ کریں،کیا وزیراعظم صرف ایک قرارداد کی وجہ سے ایسا کر سکتے ہیں؟ یہ قرار داد تو ایک بہانہ ہے ،حکومت پا رلیمان کی آڑ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے گریزاں ہے ، حکومت فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کروارہی ہے ،لیکن سپریم کورٹ میں ابھی تک نظرثانی کی اپیل دائر نہیں کی
، باہر سے ہی فل بنچ بنانے اور استعفے کے مطالبے کیے جارہے ہیں،حالانکہ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ عدالتی فیصلے مطالبات پر تبدیل ہوتے ہیں نہ ہی استعفے دیئے جاتے ہیں، اس کے لئے عدالتی طریقہ کار ہی اختیار کرنا پڑتا ہے۔اتحادی قیادت ایک طرف کہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کرتی ہیں تو دوسری جانب انتخابات سے راہ فرار کے سارے حربے استعمال کیے جارہے ہیں ، آئین میں جب صاف طور پر لکھا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعدنوے دِن میں انتخابات ہونے چا ہئیں تو پارلیمنٹ اسے کیسے سبوتاڑ کر سکتی ہے،جب تک کہ اس میں ترمیم نہ کرے،
پارلیمنٹ آئین کی حدود میں رہ کر فیصلے کر سکتی ہے،آئین سے بالاتر تر ہو کر کچھ بھی نہیں کر سکتی ہے،اس دگرگوں صورت حال میں سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی طرف سے ایک اچھی تجویز آئی ہے کہ اگر اتحادی حکومت چاہتی ہے کہ انتخابات ایک ہی دن ہوجائیں تو اس کے لئے باہمی مشاورت سے آئینی ترمیم بھی کی جا سکتی ہے ،لیکن اس تجویز کو حکومت کبھی نہیں مانے گی، کیونکہ حکمران اتحادکو اپنا اقتدار جاتا نظر آتا ہے، حکومت کیلئے موجودہ سال تو کیا، اگلے سال بھی انتخابات کرانا ایک ڈراؤنا خواب ہے
،اب ایسے میں بات آگے کیسے بڑھ سکتی ہے۔حکومت انتخابات کے انعقاد پر اپوزیشن سے مشاورت کرنا چاہتی ہے نہ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل پیراں ہونے کیلئے تیار ہے ،تاہم سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں حکومت کو واضح ہدایت دے چکی ہے کہ دس اپریل تک الیکشن کمیشن کو بیس ارب روپے فراہم کرے،حکومت نے دس ارب دیے کر سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرنے کا عندیہ دیا ہے ،اگر اس کے بعد مزید ہدایت پر عمل نہیں کیا جاتااورکوئی تو جیحات تراشی جاتی ہیں تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟
اس بارے میں کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مناسب حکم جاری کیا جائے گا،گیارہ اپریل تک صورت حال بالکل واضح ہو جائے گی کہ پنجاب میں انتخابات وقت ِ مقررہ پر ہو رہے ہیں،اس دوران یہ خبر بھی زرِ گردش ہے کہ اتحادی جماعتوں میں سے کچھ بڑی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے
اور اپنے امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے کاغذات واپس لے لیں، اگریہ خبر درست ہے تو اسے جمہوریت سے راہ فرار ہی کہا جا سکتا ہے، اس سے انتخابات یکطرفہ تو ہو جائیں گے، مگر اْن کی آئینی و قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس صورت حال میں پھر وہی ایک ہی راستہ ہے کہ جس کی طرف بار بار توجہ دلائی جاتی رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں محاذ آرائی اور اداروں سے ٹکراؤ کے بجائے آپس میں مل بیٹھیں اور آگے بڑھنے کی کوئی راہ نکالی جائے،اس سسٹم کو پارلیمانی قراردادوں یا دیگر غیرجمہوری حربوں سے زیادہ عرصے تک نچلایا نہیں جاسکتا ہے ،اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے
کہ حکومت اور اپوزیشن قیادت محاذ آرائی کے بجائے مل بیٹھ کر عام انتخابات کے انعقاد پر کوئی قابل قبول حل تلاش کرے ،جمہوریت کی دعوئیدار سیاسی جماعتیں کب تک الیکشن سے بھاگتی رہیں گی ،الیکشن کے انعقاد میں جتنی دیر ہو گی ،حکمران اتحاد کیلئے کسی قابل قبول حل تک پہنچنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا ،اس سیاسی بحران کو دوستانہ اور آئینی طور پر حل کرنے کیلئے وقت تیزی سے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے ،اگر سیاسی قیادت نے بروقت مل بیٹھ کر کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے میں مزید دیر کردی تو پھرسب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور سب خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے