عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 43

پاکستان مسائل سے کبھی نکل پائے گا !

پاکستان مسائل سے کبھی نکل پائے گا !

اتحادی حکومت کو برسراقتدار آئے اور سابق حکومت کو معزول ہوئے ایک برس ہوگیا ہے،لیکن ملکی حالات ہیں کہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ،آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے لیے مذاکرات سابق حکومت کے دور میں جاری ہوئے تھے ،موجودہ حکومت کا الزام تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو سابق حکومت کی ناتجربہ کاری نے خراب کیا اور ہمیں تجربہ ہے، ہم آئی ایم ایف سے معاملات درست کرلیں گے،

لیکن ایک برس گزرنے کے بعد بھی معاملات درست نہیں ہو سکے ہیں، ہر ہفتے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ایک نیا دعویٰ سامنے آتا ہے کہ اس ہفتے مسودے پر دستخط ہوجائیں گے، لیکن قوم نے دیکھ رہی ہے کہ آئی ایم ایف کی مسلسل سخت شرائط پر عملدرآمد کے باوجود ابھی تک معاہدہ نہیں ہو سکا ہے ،اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان درہیش مسائل سے کبھی نکل ہی نہیں سکے گا۔
ملک میں معیشت کی زبوں حالی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے،ملک ایک بڑی ایمرجنسی سے گزر رہا ہے ،حکومت کی پہلی ترجیح معیشت کی بحالی ہو نی چاہئے ،لیکن حکومت معیشت سے زیادہ سیاسی بکھیڑوں میں پڑی ہو ئی ہے ،اس کے اثرات عالمی اداروں کے بدلتے روئیوں میں بھی نظر آرہے ہیں ،آئی ایم ایف نہ صرف بیل آئوٹ پیکیج کے معاہدے سے قبل پاکستان سے اپنی ناروا شرائط تسلیم کروا رہاہے،

بلکہ ان پر من و عن عملدرآمد بھی کروارہا ہے ،اس کے باوجودآئی ایم ایف کے معاہدے کی راہ میں متحدہ عرب امارات سے اضافی ایک ارب ڈالر کے حوالے سے تصدیق ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، تاہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس کے موقع پر خوشخبری سنائی گئی ہے کہ پاکستان سے اسٹاف لیول کا معاہدہ جلد ہوجائیگا ،اس کے بعد بورڈ نوویں نظر ثانی کی منظوری دے گا۔
آئی ایم ایف کے معاہدے کا تو پتہ نہیں کب ہو گا اور ہوگا بھی یا نہیں،لیکن اس معاہدے سے قبل ہی ایک عام شہری کی زندگی عذاب بنادی گئی ہے، پاکستانی عوام کو اپنے ہی قومی وسائل سے محرو م کیا جارہا ہے، ایک طرف بجلی، گیس مہنگی ترین ہو نے کے باوجود دستاب نہیںتو دوسری جانب اشیاء ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں نے عوام سے روٹی کاآخری نوالہ بھی چھین لیا ہے ،حکمران اشرافیہ نے عوام کو بھکاری بنادیا ،

لیکن اپنے پاس اربوں ،کھربوں ڈالر کا ذخیرہ رکھتے ہے، پاکستان کا قومی خزانہ خالی کردیا گیا ہے ،لیکن مشکل وقت میں کوئی اسے بھرنے کیلئے تیار نہیں ہے ، عوام سے ہی قربانی مانگی جارہی ہے اور عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا کر گلے پر مسلسل چھری چلائی جارہی ہے ، یہ حکمران اشرافیہ قصاب بن کر عوام کے گلے پر چھر یاں چلائے جارہے ہیں،لیکن انہیں کوئی روکنے والا ہی نہیں اور جو روک سکتے ہیں ،

وہ روکنے کے بجائے پشت پناہی کرنے میںلگے ہیں،عوام کا کل بھی کوئی پرسان حال نہیں تھا ،عوام کا آج بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے،عوام کل بھی اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے در بدر ہورہے تھے ،عوام آج بھی اپنی بھوک مٹانے کیلئے بھکاریوں کی طرح مفت آٹے کے حصول میں بے موت مررہے ہیں ۔
اس وقت صرف ایک ارب ستر کروڑ ڈالر کی قسط کا مسئلہ ہے، اس کے لیے پوری قوم کی ناک رگڑوا دی گئی ہے، موجودہ صورت حال کی سنگینی کی ذمے داری سابق اور موجودہ حکومت پر زیادہ عائد ہوتی ہے، لیکن ہم جن حالات کے یرغمال ہیں، وہ گزشتہ کئی برسوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے،تاہم کوئی اپنی ناہلی قبول کرنے کیلئے تیار ہے نہ ہی کوئی ذمہ داری لے رہا ہے ،ایک دوسرے پر ڈال کر پہلے بھی وقت گزارا جاتا رہا اور اب بھی ایک دوسرے کو مود الزام ٹھراکر ڈنگ ٹپا ئو پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے ،

سیاست نہیں ،ریاست بچائو کے زبانی کلامی دعوئے تو بہت کیے جاتے ہیں ،مگر کوئی عملی طور پر ریاست کیلئے اپنی سیاست قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف اور عالمی طاقتیں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے منصوبے بنارہے ہیں اور پاکستان کے عوام کی گردن پر بدعنوان اور دولت اقتدار پرست سیاسی اور مقتدر مافیا مسلط ہے،یہ عوام کے نمائندے نہ ہوتے ہوئے بھی عوامی نمائندگی کے دعوئیدار ہیں، یہ ساری باتیں حکمران سمجھتے ہیں اور عوام بھی سب کچھ جانتے ہیں،

لیکن خود کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان گھن چکروں کے حوالے کررکھا ہے، عوام کب اپنا بھلا سوچیں گے، عوام بظاہر کمزور کہلائے جاتے ہیں، اگر عوام اپنے خلاف سیاسی مافیا کے مقابل متحد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی ،لیکن انہیں متحد ہونے ہی نہیں دیا جاتا ہے ،اشرافیہ اپنے مفادات کیلئے نہ صرف عوام کو تقسیم کیے رکھتے ہیں ،بلکہ ادارارتی تقسیم سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں ،یہ اس تقسیم در تقسیم کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں چار سو افرا تفری ہی دکھائی دیے رہی ہے۔
یہ صورتحال ملک کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے ،اگر معاملہ چند ماہ یا سال کا ہوتا تو کچھ اُمید کی جاسکتی تھی ،لیکن حکمرانوں کے رویوں سے مستقبل قریب میں بھی کوئی بہتر اُمید کی کرن دکھا نہیں دیے رہی ہے ،ایک طرف ملکی مسائل حل نہیں ہورہے ہیں تو دوسری جانب آئی ایم ایف سے معاہدے کی تلوار لٹکی ہوئی ہے ،ایسے حالات میں چاہئے تھا کہ سیاسی قیادت مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرتے،لیکن سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا تو در کنار ایک دوسرے کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے ہیں ، اس ماحول کو ٹھیک کرنا ہوگا ،

قومی مفاد میں ایک دوسرے کو قبول کرنا ہو گا،اس کے بعد معاشی استحکام لانے کے لیے لوگوں کے ساتھ سچ بولنا پڑے گا، اگر آج ہمیں آئی ایم ایف سے قسط مل بھی جاتی ہے تو چھ مہینے بعد کیا ہو گا؟ سال بعد کیا ہو گا؟ ہم پھر اسی مقام پر دوبارہ کھڑے ہوں گے،ہمیں آگے بڑھنے کیلئے خود انحصاری پر عمل پیراں ہوتے ہوئے کوئی موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی ،اگر ہم ماضی سے کوئی بھی سبق سیکھ سکے ہیں تواس کا حل نکل سکتا ہے، لیکن یہ کتنا دیرپا حل ہو گا ،اس کا انحصار پا لیسی میکرزکی دور اندیش پالیسی پر ہی منحصرہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں