عالمی سطح پربنتےبگڑتے رشتے،امن عالم قائم رکھنے، ممد و مددگار ہوسکتے ہیں 55

ہم داعیان اسلام میں بھی، کیا اخلاق و اقدار و کردار کا فقدان موجود ہے؟

ہم داعیان اسلام میں بھی، کیا اخلاق و اقدار و کردار کا فقدان موجود ہے؟

نقاش نائطی
۔ +966562677707

حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ کی قبر اطہر پر، وقت تدفین ڈالا گیا پانی سوکھا بھی گیا ہوگا کہ نہیں،کہ عالم اسلام کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی ندوةالعلماء کی مسند اعلی پر براجمان کئےگئے،حضرت مولانا بلال حسنی دامت برکاتہم کے، طریقہ انتخاب پر اختلافی سرگوشیاں سائبر میڈیا تک دستک دینے لگی ہیں۔ کسی بھی ادارے کے ذمہ دار کے انتقال بعد، اس ادارے کے حسن انتظام کے لئے،کسی نہ کس کو تو، ذمہ داری دینی یا لینی پڑتی ہی ہے، اور ایسے کوئی بھی بڑے فیصلے، اس عہدے کے اہل ذمہ داروں مابین،مشاورت کے بغیر طہ نہیں ہوتے ہیں، اور نہ ہی اعلان کئے جاتے ہیں۔

پھر مشاورت بعد ہوئے فیصلے کے خلاف سرگوشی باہر آئی بھی تو کیسے؟ کیا اس عہدے کا کوئی ایسا دعوے دار تھا؟ جس نے اپنے علاوہ کسی اور کے اس مسند تمکنت پر براجمان کئے جانے پر، اپنی دعویداری کا اظہار کرنے کے لئے، حسن انتخاب عمل ہی پر سوال اٹھا، ایک نئے فتنے کی ابتدا کردی ہے۔اس اعتبار سے وہ شخصیت کتنی ہی عالی مرتبت کیوں نہ ہو؟ اس عالی مرتبت، تمکنت آمیز عہدے نگران دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو پر، ان کا انتخاب نہ کیا جانا ہی بہتر لگتا ہےحضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ الحمدللہ کچھ کم صد سو سال یعنی کم و بیش 94 سال کی عمر طویل بعد بھی، مکمل بہوش ہواش رہتے، اپنی ذمہ داری نبھاتے، اپنے رب کے بلاوے پر، اس دنیا کو خیر باد کہے، دار فانی کی طرف کوچ کر گئے تھے۔

کیا انکی زندگی میں، انکے بعد کون ذمہ داری سنبھالے گا اس پر مشورہ نہیں ہوا تھاکیا؟ یا حضرت مولانا نے اس سمت کچھ رہنمائی نہیں کی تھی کیا؟ کچھ بھی یو یا کوئی بھی ہو، وہ دنیوی و اخروی اعتبار سے کتنی بھی عالی مرتبت شخصیت کامالک ہی کیوں نہ ہو؟ دارالعلوم ندوة العماء کی نظامت کے عالمی مرتبت یا عالی تمکنت عہدے پر، بغیر انکے قریبی ذمہ دار علماء کرام کے مشورے کے، کوئی بھی عہدہ بر نہیں ہوسکتا ہے۔

پھر کیوں حضرت مولانا بلال حسنی دامت برکاتہم کے انتخاب پر سوال اٹھا، اس موضوع کو بحث و تمحیص فتنہ پروری کے لئے، حوالہ سائبر میڈیا کیا گیا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس پر بھی اخلاق و اقدار خلاف ورزی گاز گرے گی بھی یا در گزر کر ایسے فتنوں کو مستقبل میں مزید پنپنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا؟
اخوت محبت یگانگت کے ساتھ ہی ساتھ، للہ فااللہ اخلاص کے ساتھ خدمت اور عہدوں کی چاہ نہ ہونے کا درس ،عالم کو دینے والوں کے درمیان، عہدہ تمکنت کی چاہ رکھتے اس کے حصول کی سعی ناتمام کرنے والوں کا، ذمہ داران مسلم امہ کے درمیان ہونا ہی تعجب خیز امر تھا، لیکن ایسے حصول عہدہ بری کے دعویدار کا ،ایسے اختلافی معاملات کو امت مسلمہ کے درمیان بحث و تمحیص کے لئے سائبر میڈیا حوالے کرنے والی شخصیت کا، عالی مرتبت مقام شوری ندوةالعلماء لکھنؤ میں ہونا، کیا اس سنگھی مسلم مخالفت منافرتی پس منظر والے دور میں، برداشت کیا جانا چاہئیے؟

یہ اختلافی موضوع عوام حوالہ کرنے کا مقصد شوری دارالعلوم ندوةالعلماء پر اپنا دباؤ برقرار رکھتے ہوئے،حضرت مولانا مرحوم کے پاس باقی رہا ، دوسرا عہدہ تمکنت، مسلم پرسنل بورڈ کی صدارت ہتھیانے کی منصوبہ بندی تو کیا نہیں یے؟ اس سمت دانشوران مسلم امہ،ندوةالعلماء لکھنؤ اور مجلس عاملہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو تدبر و تفکر سے کام لینا چاہئیے۔ ایسے اختلافی موضوعات کو، عوام کے درمیان اچھال کر 2025 تک سو سال مکمل کررہی

مسلم دشمن آرایس ایس کے سامنے ان کے اپنے سربراہ سرچالک، کسی بھی عام و خاص کے اختلافی کرنے کی ہمت سے ماورائیت والے،حسن انتخاب کے سامنے، اسلامی نظام انتخاب کمیوں خامیوں کو طشت ازبام کرتے ہوئے، گویا کوئی اسلامی نظام انتخاب ہی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی سازش کا مرتکب ہورہا ہے اللہ ہی نگہبان ہو مسلم امہ ھند پر۔ واللہ الموافق بالتوفئق الا باللہ

سائبر میڈیا پرگردش کرتی خبر

رات کی تاریکی کے درمیان سفید کاغذ جاری کرکے مولانا بلال حسنی صاحب کو ندوۃ العلماء کا نیا ناظم بنادیا گیا ہے، پتانہیں کیوں اتنی رات گئے یہ فیصلہ جاری کرنا پڑا جبکہ ایسے مبارک کاموں کو دن کی روشنی میں انجام دیا جاتا تو کتنی اچھی بات ہوتی خیر، رات کی سیاہی کےدرمیان سامنے آنے والے اس فیصلے کو اللہ رب العزت دارالعلوم ندوہ کےحق میں خیروبرکت کا سبب بنائے، آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں