قومی مفاہمت وقت کی ضروت !
حکمران اتحاد سیاسی بحران کی پیچیدگیوں پر قابو پانے کی خاطر پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی اصلاحات لانے کی کوشش میں عدالتی فعالیت سے الجھ رہی ہے ،موجودہ آئینی بحران مسلم لیگ( ن)کیلئے نیا نہیں ہے ،نواز لیگ نے ہر دور میں عدالتی فعالیت کے خلاف خاموش مزحمت جاری رکھی ہے
،لیکن اس بار پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عدالتی فعالیت کو کند بنانے کی جاریحانہ مشق میں سر گرداں نظر آتی ہے ،اس ٹکرائو کی سیاست میںمسلم لیگ (ن) کچھ حاصل کر پائے گی ،اس کا پتا نہیں، ،لیکن جمہوریت جاتی ضرور نظر آرہی ہے ۔حکمران اتحاد کچھ بھی ہوجائے اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں نہ ہی انتخابا ت کرونا چاہتے ہیں،
تاہم عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آچکا ہے، اس کے تحت الیکشن کمیشن نے چودہ مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے ہیں، لیکن تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے جس دن ناکام مذاکرات کی رپورٹ کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرانے کی درخواست دائر کی گئی، اس دن ہی الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر نظرثانی کی درخواست بھی دائر کردی ہے، الیکشن کمیشن نے بھی اپنی استدعا میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے، اُدھر حکومت کی طرف سے بھی تاثر دیا جارہا ہے
کہ دونوں کے درمیان مذاکرات عدالت عظمیٰ کے دبائو پر ہوئے ہیں، حکومت نے فیصلہ کررکھاہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی، اس کے بعد ہی انتخابات ہوں گے اور قومی اسمبلی کے انتخابات سے قبل صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہیں کرائے جائیں گے، یہ موقف الیکشن کمیشن نے بھی اپنی درخواست میں اختیار کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے منتخب صوبائی اسمبلیوں کی موجودگی کی وجہ سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات ہوں گے،حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں ہی مل کر انتخابات نہ کروانے کا تہیہ کر چکے ہیں ،اس لیے ببانگ دہل مختلف تو جہات کے ذریعے عدلیہ کی حکم عدولی کی جارہی ہے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اپنے سامنے رکھیں تو سبق ملتا ہے کہ سیاسی تنازعات کے فیصلے عدلیہ میں جائیں گے تو عدلیہ بھی سیاسی گندگی میں لتھڑے گی، اتحادی قیادت جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو متنازع بناجارہاہے اور اپنے مفادات کیلئے پارلیمان کا سہارا لیا جارہا ہے، آئین کے تحت پارلیمان کو قانون ساز ادارہ ہونے کی حیثیت سے تمام اداروں پر فوقیت حاصل ہے،
لیکن پارلیمان منتخب سیاست دانوں سے بنتی ہے، اگر پارلیمان ہی نہ مکمل اور اس کی ساکھ ہی بر قرار نہ رہے تو پارلیمان کی بالادستی کے دعوے کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں رہتے ہیں،اتحادی حکومت ایک طرف عدلیہ کے فیصلے پر عمل نہ کرتے ہوئے آئین و قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے تو دوسری جانب پارلیمان کا سہارا لیتے ہوئے عدلیہ کو للکار رہی ہے ،یہ پارلیما ن اور عدلیہ کا ٹکرائو ایک ایسا بحران لائے گا کہ جس کے سامنے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
اس وقت ملک جس آئینی، سیاسی اور معاشی بحران میں گھرا ہے، اس سے نکالنے کے لیے سیاست دانوں کو محاذ آرائی اور ٹکرائو کی سیاست کے بجائے مذاکرات سے ہی قابل قبول حل نکلالنا ہو گا،
حکومت اور اپوزیشن میںمذاکرات کے تین دور ہو چکے ،مگر یہ مذاکرات بے معنی رہے ہیں ، ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بے معنی کے بجائے بامعنی مذاکرات کرنا ہوں، اگر حکومت اور اپوزیشن اپنے فیصلے خود کر نے کے بجائے دوسروں کی جانب دیکھتے رہے تو مذاکرات کا میاب ہوں گے نہ ہی ملک وعوام بحرانی کیفیت سے باہر نکل پائیں گے ، موجودہ ہیجانی کیفیت اور سیاسی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ فوری عام انتخابات ہیں،
لیکن اس کا ادارک کرتے ہوئے حکمران قیادت تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ کریں گے ،اتحادی قیادت کبھی ایسا نہیں کریں گے،ان کی نظر بہت محدود اور اپنے شخصی، گروہی اور طبقاتی مفاد پر ہی رہتی ہے، اس ملک میںجس کے پاس ڈنڈا، اس کا زور ہے، چاہے ملک و قوم تباہ ہی ہوتی رہے؟
ایک ایسے وقت میں،
جبکہ وطن عزیزانتہائی مشکلات میں گھرا نظر آرہا ہے، ہمیں اپنے عام رویوں میں تحمل، برداشت، رواداری اور لچک کے پہلوئوں کو ملحوظ رکھنا ہوگا ،سیاسی قیادت کے ساتھ اداروں کو بھی تنائو کے تاثر سے گریز کرتے ہوئے باہمی مشاورت کا ایسا ہی طریقہ اختیار کرنا ہو گاکہ جس میں بالادستی صرف آئین وقانون کو ہی حاصل رہے اور سب مل کر اس امر کو یقینی بنائیں کہ آئین کی روح اور الفاظ کے مطابق پاسداری کی جائے ،