میں نہ مانوںکی رٹ !
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کے معاملے پر مذاکرات کوئی قابل قبول حل نکالے بغیر ہی ختم ہو گئے ،اس مذاکراتی عمل کیلئے فریقین پہلے ہی تیار نہیں تھے ،مگر انہیں زبر دستی بیٹھایا گیا کہ سیاسی معاملات سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر سلجھا لیے جائیں ،تاہم اس مزاکراتی عمل سے سیاسی معاملات تو نہ سلجھ پائے ،مگر حکومت اتنی مضبوط ضرور ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ سر کاری عہدیداروں کے احتساب کی بھی بات کرنے لگی ہے ،ایک طرف پارلیمان اور عدلیہ آمنے سامنے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی عدلیہ کے حق میں ریلیاں نکال رہی ہے ،کیو نکہ عدلیہ ہی پی ٹی آئی کی آخری اُمید ہے ،لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف دکھائی دیے رہا ہے ،اب پی ٹی آئی کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل نہیں ہے تو نظام انصاف کیلئے ماضی کی طرح بڑے فیصلے کرنا آسان نہیں ہو گا۔
اتحادی حکومت ایسے ہی نہیں سب کو للکار رہی ہے ،اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسی قوت ضرور ہے کہ جس کے بل بوتے پر عوام میں غیر مقبول ہوتے ہوئے بھی اپنی من مانیاں کررہی ہے ،ایک طرف آئین و قانون کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب سر عام اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،لیکن کو ئی پو چھنے والا ہے نہ ہی کوئی روک پارہا ہے ،اگر عدلیہ کوئی فیصلہ دیے رہی ہے تو اسے بھی صاف ماننے سے انکار کیا جارہا ہے ،موجودہ حکومت کس جانب جارہی ہے اور کیا کرنا چاہتی ہے ،یہ میں نہ مانون کی ایسی روش پر چل پڑی ہے کہ جس کا انجام جمہوریت کے زوال پر ہی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت نے اپنی سیاسی تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ، سیاسی قیادت بار بار وہی غلطیاں دہرانے میں لگی ہے کہ جس کا خمیازہ ماضی میں بھگتی آئی ہے ،حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے پہلے بھی متعدد بار سیاسی محاذ آرائی کے باعث امریت کو دعوت دی ہے ،ایک بار پھروہی عمل دیرایا جارہا ہے، ملک میں بدلتے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جمہوریت کے خیرخواہہوش کے ناخن لینے کی تلقین کررہے ہیں ،لیکن یہاں کوئی کسی کی ماننے کیلئے تیار ہے
نہ ہی اپنی روش تبدیل کررہا ہے ،ا س صورت حال کو دیکھتے ہوئے چین کے وزیر خراجہ کو بھی کہنا پڑاہے کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی اتفاق رائے پیدا کریں، تاکہ پاکستان معاشی اور داخلی و خارجی چیلنجز کا مقابلہ کر سکے،پا کستان کے پہلے دورے پر آئے چینی وزیر خارجہ چن گانگ نے ایسی بات کہہ کر ان حلقوں کو چونکا دیا ہے ،جوکہ چین کی اس دیرینہ پالیسی سے بخوبی واقف ہیں کہ چین کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے نہ ہی سیاسی معاملات پر کبھی اظہار خیال کرتا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں جو کچھ کہا، وہ صرف حکومت کے لئے چشم کشا نہیں‘ اپوزیشن کے لئے قابل غور ہے اور پاکستان کے عوام کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ،ہمارے حکمران اور سیاستدان روزانہ بھاشن دیتے نہیں تھکتے ہیں کہ پاکستان میں معاشی استحکام‘ سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیںہے ،لیکن سیاسی استحکام لانے کیلئے اپنی ضد و اِنا کی قر بانی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ،
ایک طرف آئی ایم ایف آٹھ ماہ سے ہماری ناک سے لکیریں نکلوا رہا ہے ‘گھٹنوں پر لانے کے بعد بھی ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کا پیکیج دینے سے انکار ی ہے تو دوسری جانب دوست ممالک نے بھی ہاتھ کھنچ لیا ہے ،لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دعوئے اپنی جگہ برقرار ہیں کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے ،جبکہ انگریزی میگزین اکانومسٹ کی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے اور ملک بھر میں خونریز ہنگاموں کا اندیشہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں ،اتحادی حکومت ادارک کررہی ہے نہ ہی انہیں لانے والے اپنی غلطی کی تلافی کرتے دکھائی دیتے ہیں ،ایک ہی پرا نا آزمایاسکرپٹ ہے کہ جیسے ایڈیٹ کر کے دہرایا جارہا ہے ،یہ پہلے کا میاب ہو ا نہ ہی آئندہ کا میاب ہوتا دکھائی دیتا ہے ،لیکن ایک ضد و اَنا ہے کہ جس کے بھینٹ ملک و عوام کو چڑھیایا جارہا ہے ،
سیاسی قیادت اب بھی ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے‘ عوام کو مہنگائی ‘ بے روزگاری‘ بدامنی اور بے چینی کی آگ میں دھکیلنے اور زیادہ سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہیں،سیاسی قیادت نے ایک بگڑے ہوئے بچے کی طرح میں نہ مانوںکی رٹ لگا رکھی ہے ،یہ میں نہ مانوں کی رٹ ہی سب کو لے ڈبو گی اور پھر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا ،سب خالی ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں گے۔