60

چہرے بدلے نظام نہ بدلا !

چہرے بدلے نظام نہ بدلا !

ملک میں جو کچھ نہیں ہو نا چاہئے تھا ،وہ کر کے دکھا دیا گیا ہے ، یہ سب کچھ کسی ملک دشمن نے نہیں ،محب الو طنوں نے کیا ہے ،اس کا قصور وار کوئی ایک نہیں ، ہم سب ہی ہیں ، ہم سب نے ہی مل کر اپنی حر کتوں سے اپنے ہا تھوں سب کچھ ہی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ،اس ملک میں کو ئی ایسا تجربہ باقی نہیں رہ گیا ، جو کہ بروئے کار نہیں لا یا گیا ہے ،لیکن ہر تجربے کے ایسے ہو لناک نتائج بر آمد ہوئے

کہ ہمیشہ ہاتھ ملتے ہی رہ گئے ہیں ،ہم نے کسی ایک تجربے کی ناکامی سے سبق حاصل کیا نہ ہی جاننے کی کبھی کوشش کی ہے کہ ملک تجربات سے نہیں ،بلکہ نیک نیتی سے عوامکو فیصلہ سازی میں شامل کرکے چلتے ہیں ،اگر عوام سے بد نیتی کرتے ہوئے فیصلہ سازی سے دور رکھا جائے گا تو ایسے ہی حالات پیدا ہوں گے ،جیساکہ آجکل دکھائی دیے رہے ہیں ۔یہ بات بالکل درست ہے کہ ملک بھر میں مشتعل ہجوم نے جو کچھ بھی کیا ،انتہائی غلط کیاہے ، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہئے

کہ انہیں مشتعل کس نے کیا ہے ،چئیرمین تحریک انصاف نے اسلام آباد روانگی سے قبل ہی اپنے ویڈیو پیغام میں کہہ دیا تھا کہ اگر کسی کے پاس ورانٹ گرفتاری ہے تو مجھے دکھایا جائے ،میں بنا کسی مزحمت گرفتاری دینے کیلئے تیار ہوں ،مگر اس سے کچھ سیاسی انائوں کی تسکین نہیں ہو سکتی تھی ،اس لیے ہتک آمیز طریقہ اختیار کیا گیا ، اس ہتک آمیز طر یقے سے گر فتاری توہو گی اور وقتی طور پر کچھ اَ نا پر ستوں کے کلیجے میں ٹھنڈ بھی پڑ گئی ،مگر یہ ٹھنڈک زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی ،

سپریم کورٹ نے گر فتاری کو جہاںغیر قانونی قرار دیے دیا ،وہیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیر کی صبح تک کسی بھی مقدمہ میں گرفتاری سے روک دیا ہے،اس کے بعد حکومت کے بیانیے میں کتنا دم باقی رہا اور کتنی شر مندگی اُٹھانا پڑی ہے،اس کا اظہار حکمران قیادت کے بیانات میں صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
حکمران اتحاد کا بیانیہ ایک بار پھر پٹ گیا ہے ، حکومت جتنے مرضی الزامات لگائے ،جتنے مرضی مقدمات بنائے، کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ،عوام ماننے کیلئے تیار ہے نہ آزمائے کو دوبارہ آزمانا چاہتے ہیں ،اس لیے حکومت کی سب کرنیاں اُلٹ پڑ رہی ہیں ، اس کا غصہ اب عدلیہ پر نکالا جارہا ہے ، حکمران اتحاد کا جب عدلیہ پر بے جا تنقید سے کچھ نہ بن پڑا تو اب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو آگے لایا گیا ہے

،پی دی ایم سر برہ کا کہنا ہے کہ عدالت دہشت گردی اور مجرم کو تحفظ دے رہی ہے، سپریم کورٹ نے غبن کو تحفظ دیا، غبن اور غبن کرنے والے کی حوصلہ افزائی کررہی ہے،سپریم کورٹ کے رویے کے خلاف احتجاج ہوگا، عدالت عظمیٰ کے سامنے پیر کو بہت بڑا دھرنا دیا جائے گا،حکمران اتحاد ایک طرف احتجاج کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کرر ہے ہیں تو دوسری جانب خود احتجاج کی کال دیے رہے ہیں ، حکمران اتحاد کے احتجاج کے خلاف اب کریک ڈائون کون کرے گا ؟حکمران اتحاد کے قول فعل کا تذاد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے

،یہ ایک طرف آئین و قانون کی پاسداری کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب سر عام آئین و قانون کی پا مالی کررہے ہیں ، یہ عدلیہ کے فیصلے ماننے کیلئے تیار ہیں نہ ہی عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں ، یہ جانتے ہیں کہ عدلیہ میں سر خرو ہوئے نہ عوام کی عدالت میں پز ی آرائی ملنے والی ہے ،اس لیے ٹکرائو کی سیاست کی جارہی ہے ،یہ طاقت کے بل پر ہر ادارے کو فیصلہ کرنے پر مجبور کررہے ہیں، اس طرز حکمرانی نے ان شعبوں کی ساکھ بھی مجروح کردی ہے کہ جنہیں قوم تقدس کی نظر سے دیکھتی ہے،حکومت ایک خطر ناک کھیل کھیل رہی ہے ،وہ ایک طرف اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لا رہی ہے

تو دوسری جانب عوام کو اداروں کے خلاف مشتعل کررہی ہے،چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل آیاہے، وہ ناقابل قبول اور تشویشناک ہے،لیکن غیر متوقع نہیں ہے، حکومت نے جانتے بوجھتے سب کچھ نہ صرف کیا ،بلکہ بذات خود کروایا ہے ، حکومت اور انتظامیہ کہاں سورہے تھے کہ جب مشتعل ہجوم سب کچھ کررہا تھا ،حکومت انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہے ، یہ سیاسی انتشار کو جہاں مسلسل ہوا دیے رہی ہے ،وہیںاداروں سے ٹکرائو میں بھی آخری حد تک جارہی ہے ،اس کے نتائج ملک و جمہوریت کیلئے انتہائی خطر ناک ہو سکتے ہیں

،اس کا ادراک کرتے ہوئے حکمران اتحاد کو اپنے روئیے میں تبدیلی لانا چاہئے، لیکن ذمے دارانہ مناصب پر فائز شخصیات عداوت اور دشمنی میں اتنے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں کہ ان کی واپسی اب مشکل ہی دکھائی دینے لگی ہے۔آئے کاش ،حکمرانوں نے سیاسی محاذ آرائی کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کو ششیں کی ہو تیں توشائد آج نفرتیں اتنی گہری کبھی نہ ہوتیں ،حکمران اتحاد کا لب و لہجہ اور عزائم دیکھ کرایسا ہی لگتا ہے کہ یہ نفر تیں کم ہو نے کے بجائے اب مزید گہری ہوتی جائیں گی ،

اس بڑھتی نفرت کا سد باب بات چیت اور افہام تفہیم سے ہی ممکن ہے ،حکومت اور اپوزیشن کو آج نہیں تو کل ایک بار پھر مذاکرات کے ٹیبل پر آنا ہی پڑے گا ،لیکن اس میں ہی بہتری ہے کہ مزید کچھ کھوئے بغیر ہی حقائق کا ادرک کرلیا جائے ،بصورت دیگر دوسرے کے بعد تیسر سکرپٹ پر کام شروع ہو چکا ہے ،نئی سیاسی پارٹی نئے پرانے چہروں کے ساتھ تیار ،بس اعلان ہونا باقی ہے، پہلے بھی چہرے بدلے نظام وہی چلتا رہا ،ایک بار پھر چہرے بدل جائیں گے ،مگر نظام وہی پرانا ہی چلتا رہے گا ، اس ملک میں چہرے بدلنا آسان ، نظام بدلنا انتہائی مشکل ہے ،کیو نکہ اس نظام سے چہرے بدلنے والوں کے مفادات وابستہ ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں