عوام تبدیلی کے منتظر ہیں ! 84

سیاست سے عوام کا اعتماد اُٹھ رہا ہے !

سیاست سے عوام کا اعتماد اُٹھ رہا ہے !

اس وقت سارے الجھے معاملات کو سلجھانے کا واحد حل مذاکرات ہیں ،تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے، حکومت کا مذاکرات سے صاف انکار کر تے ہوئے کہنا ہے کہ مذاکرات سیاستدانوں سے کیے جاتے ہیں ،دہشت گردوں سے نہیں،اس کے باوجود پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر بعض حلقے اسے تحریک انصاف پر دہشت گردی کے الزامات کا جواب سمجھتے ہیں

،پی ٹی آئی قیادت کی سیاسی پالیسیوں کے نقاد کہتے ہیں کہ ان کے پاس جب پارٹی اور عوام کی طاقت تھی، اس وقت مذاکرات کی طرف آنا چاہیے تھا، عمران خان کے سیاسی فیصلوں اور مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہ بیٹھنے پر اعتراض کے کئی جواز ہو سکتے ہیں، لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں ہے

کہ موجودہ سیاسی انتشار کا حل اسی صورت ممکن ہے کہ جب تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھیںاور سارے الجھے معاملات سلجھائے جائیں ،اگر اس بار بھی مذاکراتی عمل سے گریزاں کیا گیا تو اسکا خمیازہ سب ہی کو بھگتنا پڑے گا۔پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،ملک میںپہلی بار بیرونی خطرات کی نسبت داخلی خطرات زیادہ پریشان کن نظر آرہے ہیں، ایک طرف اداروں میں ٹکرائوپیدا کیا جارہاہے تو دوسری جانب عوامکو اداروں کے سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے

،اس کے تدارک میں اہل سیاست مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ،مگر سیاست دانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی معاملات سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑکا باعث بن رہی ہے،حزب اختلاف پہلے حزب اقتدار کے خلاف سراپہ احتجاج رہی اور اب حزب اقتدار حزب اختلاف کے خاتمے پر بضد نظر آتی ہے ،جبکہ ملک میں سیاسی و معاشی عد استحکام بام عروج پر ہے ،حزب اقتدار اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہی نہیں کررہے ہیں ،

انہیں بہت دیر بعد اپنے مخالفین کے خلاف ایسا نادر موقع ملاہے کہ جس سے استفادہ کرنے میں ساری قوت صرف کی جارہی ہے ،حکمران اتحاد کی پوری کوشش ہے کہ تحریک انصاف کو نہ صرف دیوار سے لگایا جائے ،بلکہ اس کی قیادت کو بھی سیاست سے نکال باہر کردیاجائے ،لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں ،جتنا کہ سمجھا جارہا ہے۔پی ڈی ایم حکومت نومئی کے واقعات کے بعد اتنی طاقتور ہوئی ہے کہ اب اپنے مخالفین کو سیاست سے مائنس کرنے میں کو شاں ہے ، تحریک انصاف کی اپنی غلطی نے ہی پی ڈی ایم کو ایسا موقع دیا ہے

کہ وہ اپنے مرضی کے فیصلوں پر عملدرآمد کروا پائے،سردست تحریک انصاف پسپا نظر آرہی ہے،اتحادی جماعتیںتجربہ کار ہیں،انہیںحکومتی اختیار ات کے استعمال کے ساتھ ریاستی معاملات طے کرنے کا بھی طریقہ آتاہے ،انہیں بخوبی علم ہے کہ سیاسی قوت کو بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا،لیکن اتنا کمزور ضرور کیا جاسکتا ہے کہ وہ مد مقابل جیت نہ پائے ، اس لیے پی ٹی آئی کی بھر پور توڑ پھوڑ کی جارہی ہے ،لیکن اگر مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی اگلے انتخابات میں جیت بھی جائیں تو یہ جماعتیں عوام کی اکثریتی حمایت سے محروم ہی رہیں گی، ایسی صورت میں ایک دو سال سے زیادہ حکومت برقرار رکھنا محال ہو گا

، اس صورت حال سے بچنے کے لئے بھی پی ڈی ایم کے فیصلہ ساز کئی منصوبے ترتیب دے رہے ہوںگے ،لیکن کوئی منصوبہ کار گر ہونے والا نہیں ہے تو پھر ساری جماعتوں کو لازمی ہے کہ ایک دوسرے سے بات ہی کرنا ہو گی ،اس وقت تک بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہو گا،کیا بہتر نہیں ہے کہ تحریک انصاف جب کمزور ہو رہی ہے تو حکومت اس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دے،اس وقت حکومت بہت کچھ اپنے مفاد میں منواسکتی ہے جو کہ پہلے منوانے میں ناکام رہی ہے۔
حکمران اتحاد جتنا مرضی مذاکرات سے انکار کرے آج نہیں تو کل کرنا ہی پڑیں گے، تحریک انصاف مذاکرات سے گریزاں کرکے نقصان اُٹھا چکی

،اب حکمران اتحاد ایسے کسی نقصان سے بچنے کی کوشش کرے،اگر حکمران اتحاد نیسیاسی درجہ حرارت ایسے ہی بڑھاتے رہے تو وہ وقت دور نہیںکہ جب حکومت کے لئے اپنے اقدامات کا دفاع کرناہی مشکل ہو جائے گا،اس وقت ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس حاصل کردہ طاقت ہی نہ رہے،اس لئے مکالمے اور مذاکرات سے گریز نہیں کرنا چاہیے،پچھلے دو ہفتوں کے واقعات نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو بدترین سطح پر پہنچا دیا ہے،غیر ملکی سرمایہ کاری رک چکی ہے اوردوست ممالک روز روز کے داخلی جھگڑوں سے تنگ آکر لاتعلق ہو رہے ہیں،پا کستان اپنے داخلی انتشار کے باعث تنہا ہو رہا ہے اور اہل سیاست کے ساتھ ان کی پشت پناہی کرنے والے معاملات کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں کررہے ہیں ۔
یہ صورتحال قطعی طور پر حوصلہ افزا نہیں،سیاسی قوتیں ریاست کا انتظامی چہرہ ہوتی ہیں،بدحالی ‘ بدامنی اور انتشار کو اسی صورت کم کیا جا سکتا ہے کہ جب سب ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کریں‘ آئین کے تحت ملے اختیارات کی حدود میں رہیں اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرتے ہوئے مل بیٹھ کر کوئی قابل قبو ل حل تلاش کریں ،اس پکڑ دھکڑ سے عوام کا سیاست سے اعتماد اٹھ رہا ہے، اس سلسلہ کو کہیں روکنے کی ضرورت ہے، خود پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ طاقت کا محور عوام اور پارلیمنٹ ہے، امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں عوام اپنی طاقت دکھا کر ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے والوں سے خودہی سارا حساب چکتا کردیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں