67

لفٹ نہ کروانے والا نوید ملک شخصی خاکہ

لفٹ نہ کروانے والا نوید ملک شخصی خاکہ

لفٹ نہ کروانے والا نوید ملک شخصی خاکہ
: نوید ملک
خاکہ نگار : شہزاد افق التمیمی

ارشد ملک کی گاڑی سکتھ روڈ پر کھڑی تھی اور دور سے ایک نوجوان موٹر سائیکل پر سوار دکھائی دے رہا تھا۔ابھی میں اپنے گاؤں ہی سے ادبی سرگرمیوں کے لیے منصوبہ بندی کیا کرتاتھا۔تعلیم کے حوالے سے بین الاقومی اسلامک یونیورسٹی اسلام میں داخلہ لیا تو عارضی طور پر ہاسٹل میں رہنا تھا۔اسلام آباد آنے سے پہلے مختلف ادبی لوگوں سے کسی ایسے شخص کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں جو میری رہنمائی اور معاونت کر سکے۔ کئی ہونٹوں پر نوید ملک کا نام جھلملا رہا تھا۔میں نے سن رکھا تھا

کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی کئی تنظیموں میں آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور خاص کر نوجوان لکھاریوں کے لیے خصوصی طور پر اپنی ذات خرچ کرتے ہیں۔فیس بک پر تلاش کر کے آپ کی تصویر دیکھی اور پھر شخصی حوالے سے کئی عکس آنکھوں کے آئینوں میں ابھرنے لگے۔ بہت سی ادبی شخصیات ایسی ہیں جن کے لیے کہا جا تا ہے کہ ”لفٹ نہیں کرواتے”، میں نے سوچا تھا کہ چہرے پر غصہ، پیشانی پر بَل، آنکھوں میں غصہ، ہونٹوں پر شکوہ، لہجے میں کڑواہٹ ہو گی۔چلیں جانے دیں۔میں پہلی سطر سے دوبارہ آغاز کرتا ہوں۔
میں جوں جوں قریب آتا گیا، نوید ملک کی شخصیت کے حوالے سے میری خیالی تصویر دھندلانے لگی۔ اونچا قد، چہرے پر ڈاڑھی اور روشن مسکراہٹ، پیشانی پر تھکاوٹ مگر ابھرتی ہوئی امنگیں، گوری رنگت ، بھوری آنکھیں، تراشیدہ مونچھیں، متوسط جسم۔ میں جوں ہی قریب پہنچا، گاڑی سے حسن گمان اور ارباز باغی بھی اتر گئے جبکہ ارشد ملک گاڑی ہی میں برا جمان رہے۔نوید ملک نے بہت محبت اور شفقت کے ساتھ سلام کیا اور حسن گمان سے پوچھا: یہ ہیں شہزاد افق؟ حسن نے اثبات میں سر ہلایا۔نوید ملک نے مسکراتے ہوئے کہا،” دیوانہ لگتا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ملاقات ہو گی۔”
یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اور میں نوید ملک کی بالغ نظری کا قائل ہو گیا۔اندازِ تکلم اتنا میٹھا اور دھیما تھا کہ نغمگی محسوس ہونے لگی۔ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو پہلی نظر میں کسی کی شخصیت کا نقشہ کھینچ لیتے ہیں۔ہماری دوسری ملاقات ارشد ملک کے گھر ہوئی۔میں خود کو وقت کا پابند سمجھتا تھا اور دوستوں سے اس معاملے میں بہت سختی کرتا تھا۔دوسری ملاقات کے لیے میں نے نوید ملک کو 3 بجے کا وقت دیا

اور پابندیِ وقت کے حوالے سے اپنا اصول بھی بتایا۔نوید ملک نے کوئی جواب نہیں دیا۔ٹھیک پونے تین بجے نوید ملک نے ملاقات کی جگہ پہنچ کر فون کیا۔وقت کی پابندی کوئی آپ سے سیکھے۔انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان کی جتنی تقاریب ہوئی ہیں نوید ملک ہر پروگرام میں دیے گئے وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچتے ہیں۔وقت کی پابندی کے حوالے سے میں نے آج تک کسی کے منہ سے شکوہ نہیں سنا۔نوید ملک کا کہنا ہے کہ یہ روایت مجھے والد کی طرف سے وراثت میں ملی ہے۔یقینا کئی روایات آپ کو والدین ہی سے ملی ہوں گی۔
میں نے کئی پروگرامز کروائے مگر نوید ملک میں نمود و نمائش نہیں دیکھی۔میں نے آغاز ہی میں فورم کی سرپرستی کی پیشکش کی، مگر جواب آیا ” مجھے عہدے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ نے جتنی خدمات لینی ہیں، میں حاضر ہوں۔” میں نے نوید ملک کو ”تعمیرِ ادب پروگرام” کی سرپرستی دی اور انھوں نے چھے ماہ تک مختلف صحافیوں، ادباء اور نوجوان شعراء و شاعرات کو شاعری کی بنیادی چیزیں بہت تحمل مزاجی کے ساتھ سکھائیں۔مجھے ان میں ایک اچھا استاد نظر آیا۔ویسے بھی آپ ایک ادارے میں پڑھاتے ہیں

اور جنون کی حد تک اس فرض کو نبھاتے ہیں۔اس کے علاوہ نوجوانوں کی کثیر تعداد آپ سے رہنمائی لیتی ہے۔نوید ملک نے ہمیشہ خود کو طالب ِعلم کی حیثیت سے متعارف کروایا ہے۔میں نے پڑھانے کے ساتھ ساتھ جو بات آپ میں محسوس کی وہ یہ کہ آپ دوستوں کی کسی نہ کسی طرح ذہنی تربیت بھی کرتے ہیں۔جھوٹ، تکبر، غیبت، حسد اور ان جیسی کئی بیماریوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔جب بھی کوئی محفل ہوئی، آپ دوسرے کی بات بہت غور سے سنتے ہیں اور آخر میں ایک ہی جملہ کہتے ہیں، جی! درست فرمایا۔”
آپ جتنے سنجیدہ نظر آتے ہیں اتنے ہی شوخ بھی ہیں۔مگر زیادہ تر میں نے سنجیدہ ہی دیکھا۔فضول باتیں، لطائف، دوستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اجتناب برتے ہیں۔اگر کوئی بات آپ کو بری لگے تو اونچی آواز اور شفقت بھرے لہجے میں کہتے ہیں”او! نہ کر یار!” ایسے ہی کچھ پنجابی زبان کے جملے عموما آپ کے ہونٹوں سے پھسلتے ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے آپ ہی کے لیے بنائے گئے ہیں۔آپ کو غصہ نہیں آتا، مگر جب آتا ہے تو اتنا شدید کہ ذہن کی ساری بتیاں بجھا دیتے ہیں۔مگر غصہ آپ پر کبھی برا نہیں لگتا۔آپ کو جتنا غصہ آتا ہے، آپ چند ہی لمحوں میں اس سے دو گنا زیادہ پیار نچھاور کرتے ہیں۔
کئی شعراء ایسے ہیں جن سے ملاقات ہو تو تازہ غزلوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔نوید ملک سے میں نے آج تک اکیلے میں یا کسی محفل میں ایک شعر بھی نہیں سنا۔آپ ہمیشہ دوسروں کو سننے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی ایک حد تک۔دوسرے کی شاعری جیسی بھی ہو، داد ضرور دیتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ آپ نہ صرف دکھنے میں سادہ نظر آتے ہیں بلکہ سوچنے اور کرنے میں بھی اتنے ہی سادہ ہیں۔

اس کا انداز آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی پرنٹنگ پریس سے فارغ ہو کر میں نے کہا کہ خاموشی میں کچھ لمحوں کے لیے بیٹھنا ہے۔کمیٹی چوک سے کچھ آگے، کچھ گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک پرانے قبرستان کی قریب ایک درخت کے پاس جا کر آپ نے موٹر سائیکل روک دی اور مجھے بیٹھنے کو کہا۔میں نے حیرت سے پوچھا، کہاں۔آپ نے جواب دیا،” قبرستان سے زیادہ خاموشی اور کہاں ہو سکتی ہے۔”

۔اسی قبرستان میں ایک قدم مزار بھی تھا جہاں آپ نے دعا کی اور کہا،”دراصل! ہماری قسمت میں آج یہاں حاضری لکھی ہوئی تھی۔”آپ کے ہاتھوں میں عموما ایک چھوٹی تسبیح ہوتی ہے، معلوم نہیں کون سا وظیفہ کرتے ہیں۔جب آپ سے تسبیح کے بارے میں تذکرہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں،”مجھ جیسا گناہگار پوری دنیا میں نہیں، یہ گناہوں کو دھونے کے لیے بھی تو کچھ کرنا چاہیے۔” آپ نماز کے پابند ہیں اور دوستوں اور شاگردوں کو بھی پابندیِ نماز کی تلقین کرتے ہیں۔

میں نے کبھی کسی شاعر کو اپنی شاعری پر شرمندہ ہوتے نہیں دیکھا۔جب بھی میں نے آپ سے آپ کے نظمیہ مجموعے ”کامنی” اور دیگر نظموں کے بارے میں بات کی ہے تو آپ اپنی بہت سی رومانوی نظموں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی نادانیوں پر پشیماں ہوتے ہیں حالانکہ ویسی نظمیں کسی اور شاعر نے لکھی ہوتیں تو مرنے دم تک اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر نازاں رہتا۔طویل نظم ”منقوش” پر آپ کو فخر ہے۔آپ کہتے ہیں

کہ یہ نظم میں نے خاص کیفیت میں لکھی جو کہ ایک ماہ تک طاری رہی۔اس کے بعد دو سالوں تک میں نے تراش خراش کی، تب جا کر شائع کروائی۔اس نظم کا مقصد آنے والی نسلوں کو شاعرانہ انداز میں اچھا پیغام دینا تھا۔آپ کی شاعری میں ”کوفے”کا ذکر بار بار آتا ہے۔آپ کا شہرہ آفاق شعر ہے:
کوفے کے بعد ایسی ہوا دل میں چل پڑی
ہم نے کسی بھی خط پہ بھروسا نہیں کیا
میں نیایک مرتبہ پوچھا۔سر! کوفے کا ذکر آپ کی شاعری میں زیادہ کیوں آتا ہے۔؟ آپ نے جواب دیا:
”یار! کوفیوں میں بہت رہا ہوں، لوگ خلوص کی قدر نہیں کرتے۔زندگی میں زیادہ تر فصلی بٹیرے آئے، میری ذات سے جو کچھ جُگ سکتے تھے، جُگ کر اُڑ گئے۔مگر مجھے اس بات کا غم نہیں، کیوں کہ دینا والا ہاتھ، لینیوالے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔”
اسی تناظر میں آپ ہی کا ایک شعر دیکھیے:
یہ لوگ کھاتے ہیں قسمیں مری شرافت کی
اور اس پہ ہے یہ ستم دوستی نہیں کرتے
یہ شعر نہیں بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔
راولپنڈی کے عہد ساز شعراء اور ادباء آپ کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔جلیل عالی، محمد حمید شاہد، نسیمِ سحر ، اختر عثمان اور دیگر کئی شعراء و ناقدین سے میں نے نوید ملک کے لیے اچھے کلمات سنے ہیں۔

شعری سفر کے آغاز میں آپ کی رفاقت ڈاکٹر سرور کامران مرحوم، عہد ساز افسانہ نگار”منشاء یاد مرحوم،ارشد ملک، الیاس بابر اعوان، عمران عامی، رفاقت راضی ا ور کئی احباب کے ساتھ رہی۔ادبی حلقوں میں شاید ہی کوئی شاعر یا ادیب ہو جو آپ کا نام نہ جانتا ہو۔آپ کے زیرِ اثر کئی نوجوانوں نے ادبی تربیت حاصل کی اور بعد میں ادبی تنظیمیں بھی بنائیں۔
آپ کی شخصیت کا ایک پنہاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ بچوں کی کردار سازی کے حوالے سے تحریری کام کرنے کے خواہشمند ہیں حالانکہ ایسے شعراء جو اپنی شاعرانہ صلاحیتیں منوا چکے ہیں، ان سے ایسے کام کی توقع کم کم ہی کی جا سکتی ہے۔آپ کا گھر راولپنڈی شہر سے بہت دور ہے مگر روزگار کے لیے روزانہ طویل سفر کر کے آتے ہیں، اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میں شادی کے بعد دعوت پر ان کے گھر مدعو کیا گیا

۔مجھے ان کی زندگی کے کسی پہلو میں بھی نمائش نظر نہیں آئی، میں آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ”کھلے ڈُلے” انسان ہیں۔وعدے کے پکے ہیں اور غلطی سے بھی کسی کے ساتھ دھوکہ یا فریب نہیں کرتے۔ایک مرتبہ میں نے پوچھا،” بعض شعراء اپنی شاعری میں منافقین کی ذکر کیوں کرتے ہیں اور کس کی طرف اشارہ ہوتا ہے؟”

آپ نے جواب دیا”یار! کیا میرے سمیت سارے شاعر منافق نہیں، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان کرتے ہیں، میں بھی انسان ہوں اور اپنی پاکیزگی کا دعوی کر کے گناہگار نہیں ہو سکتا۔اصل بات یہ ہے کہ چور مچائے شور۔”
آپ کو فلاحی کام کرنے کا بہت شوق ہے اور آپ کہتے ہیں،”ضروری نہیں کہ فلاحی کام صرف پیسوں سے کیا جاتا ہے۔اچھا مشورہ دینا، غصہ پی جانا، دوسری کی علمی معاونت کرنا، صلح کروانا، غلط فہمیاں دور کرنا، یہ ساری باتیں فلاحِ انسانیت ہی سے تو تعلق رکھتی ہیں۔”شاعروں میں طویل تعلقات ناممکن سی بات ہے۔

آپ کے حلقہ احباب میں ایسے شعراء بھی ہیں جن کے ساتھ آپ کے تعلقات بیس سالوں سے قائم ہیں، معمولی نوعیت کے اختلافات کی وجہ سے تلخ کلامی ہوئی ہو گی مگر آپ سے ناراض کوئی نہیں اور نہ ہی آپ نے کسی سے ناراضی کا اظہار کیا ہے، حالانکہ ادبی دنیا میں صورتِ حال اتنی گھمبیر ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خاندان اور شجرے تک کو بدنام کیا جاتا ہے۔مشاعرہ پڑھنے کا ہنر آپ کو خوب آتا ہے۔بعض اوقات ہاتھوں کے اشاروں سے بھی کام لیتے ہیں مگر داد لینے کے لیے اضافی ڈرامہ بازی ہر گز نہیں کرتے

۔خوبصورت لب و لہجہ اور اندازِ بیاں ہے۔اشعار پڑھتے ہوئے بعض اوقات آپ پر خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔کئی ایسے مشاعرے جہاں زیادہ تر ٹولہ بازی ہوتی ہے، وہاں بھی آپ تسلی کے ساتھ اپنے اشعار سناتے ہیں۔ سینئر، جونیر کے حوالے سے میں نے کبھی آپ کو برہم نہیں دیکھا۔کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کو جونیئرز سے پہلے بلایا گیا، مگر آپ نے غصے کا اظہار نہیں کیا۔پوچھنے پر کہا کہ سب دوست ہیں، اب دوستوں سے کیا گلہ کرنا یا انھیں کیا ناراض کرنا۔آپ ہمیشہ سب سے احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں

۔خاص کر کسی سینئر کو دیکھیں تو کرسی تک چھوڑ دیتے ہیں، چاہے وہ عمر میں دو دن ہی کیوں نہ بڑا ہو۔بد تہذیب اور مطلب پرست لوگوں سے آپ کی بالکل بھی نہیں بنتی۔آپ ان کے ساتھ تکرار کرنے کی بجائے کنارہ کشی بہتر سمجھتے ہیں۔تلخ سے تلخ حقائق اور کڑوی بات آپ بہت جامع اور میٹھے انداز میں ایسے بیان کرتے ہیں کہ سننے والا ہنس پڑتا ہے، جیسے ایک دوست نے آپ سے سوال کیا،”زندگی میں سب سے زیادہ خوشی آپ کو کب محسوس ہوئی؟” آپ نے جواب دیا،” اس سے بڑھ کر خوش قسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے

جس سے شاعری سیکھنے والے شعراء اور شاعرات اسی کے زندگی میں اپنے آپ کو اُس سے سینئر کہیں اور مشاعروں میں اپنا نام اُس کے بعد لکھوائیں۔”آپ کو ان شخص پر سب سے زیادہ غصہ آتا ہے جسے آپ فون کریں، وہ فون نہ اٹھائے اور بعد میں ”کال بیک” بھی نہ کرے۔سفر کرتے ہوئے آپ گپ شب کے لیے ہمیشہ کسی ساتھی کی تلاش میں رہتے ہیں، اکیلے سفر کرنے سے کتراتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بچے کی طرح مختلف مقامات کے بارے میں معلومات اکھٹی کرتے رہتے ہیں،خوبصورت جگہوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی مصوری کی تعریف کرتے ہیں۔بہت حساس ہیں، کسی کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو جائے

تو بن بلائے ان کے معاملے میں کوُد جاتے ہیں۔ایک مرتبہ ہم کوئٹہ ہوٹل میں چائے پی رہے تھے کہ فیملی ہال میں سے ایک عورت کی چیخنے کی آوازیں آئیں۔ایک مرد اس کی پٹائی کر رہا تھا۔آپ جلدی سے اٹھے تو میں نے کہا کہ میاں بیوی کی جھڑپ میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں۔ہوٹل میں کسی نے بھی انھیں چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔آپ نے پردہ ہٹایا اور مرد کو دبوچ کر کہنے لگے کہ میں پولیس کو بلوانے لگا ہوں۔وہ گھبرا کر گالم گلوچ کرتا ہوا ہوٹل سے چلا گیا۔ اس کے بعدمیرا پورا ایک گھنٹہ خواتین پر تشدد کی مذمت سننے میں گزرا۔
آپ چیلنجز قبول کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیں۔مجھ سے ایک دن کہنے لگے،”شہزاد! شعری سفر کے آغاز کا واقعہ ہے۔ایک دوست نے میری کچھ غزلیں کسی سینئر شاعر کو دکھانے کا مشورہ دیا۔میں نے اس سینئر شاعر کے شعرپر شعر کہہ کر کہا کہ بہتر شعر کون سا ہے۔اور وہ دوست لاجواب ہو گیا۔”آپ شاعری میں اس شخص کی تنقید برداشت کرنے کے قائل ہیں جو کسی شعر کو کمزور کہے اور ساتھ ہی مقابلے کا شعر کہے

۔اسی وجہ سے فیس بک پر میں نے کئی گروپس میں آپ کی قلمی رزم آرائیاں بھی دیکھی ہیں۔”بعض اوقات آپ کہتے ہیں کہ میں نے شاعری جنون کی حد تک کی ہے، شاعری کے علاوہ کچھ نہیں سوچا۔گھنٹوں بیٹھ کر مصرع سازی کرنا، فی البدیہہ مشاعروں میں شرکت کرنا، طرحی مشاعروں کے لیے لکھنا میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے مگر انسان کو دنیا کے اور بھی کام کرنے چاہئیں۔اگر آ پ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں تو زندگی میں شاعری کرنا سیکھیں۔
نوید ملک کے بارے میں، میں لکھتا رہوں گا مگر قلم نہیں رکے گا۔میری شادی پر خصوصی طور پر میرے گاؤں سہرا لکھ کر لائے جسے میرے خاندان کے ہر فرد نے پسند کیا۔ہر مصرعے میں محبت ہی محبت ہے اور محبت ہی نوید ملک کی شخصیت کا حصہ ہے۔آپ نے بغض، نفرت اور حسد کو کبھی لفٹ نہیں کروائی۔جو اشعار انھوں نے میرے لیے کہے وہ کچھ یوں ہیں۔

دوستی کا حسیں، استعارا ہے شہزاد افق
جن سیپوچھیں وہ بولیں ہمارا ہے شہزاد افق

تو نے الفت کے پھولوں سے دل کو معطر کیا
لمحہ جو ساتھ تیرے گزارا ہے شہزاد افق

والدہ اور والد ہمیشہ خوشی سے کہیں
اک دِیا گھر میں رب نے اتارا ہے شہزاد افق

خرچ ہونا ہے بھابی پہ تجھ کو بھی شادی کے بعد
اصل میں یہ ہمارا خسارا ہے شہزاد افق

آسمانوں کو چھوتا ہے احساس اس کا نویدؔ
ہر فلک پر چمکتا ستارا ہے شہزاد افق

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں