تحریر:آغا سفیرحسین کاظمی 48

اب بھی کسی لاش کا انتظارکیا جارہا ہے؟؟؟

اب بھی کسی لاش کا انتظارکیا جارہا ہے؟؟؟

تحریر:آغا سفیرحسین کاظمی
قارئن! بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ اہل پاکستان کے دل کشمیریوں کیساتھ دھڑکتے ہیں ۔شعورکی منزل تک پہنچے تو یہاں تک سچ ہی محسوس کیا کہ واقعی اہل پاکستان کے دل ،کشمیریوں کیساتھ دھڑکتے ہیں ،کشمیریوں کے لئے جذبہ ایثاروقربانی ،پاکستانی قوم کے تقریباََہرطبقہ میں پایا جاتا ہے ۔کسی بھی آزمائش میں اہل پاکستان ،اپنے کشمیری بھائیوں کیلئے اُٹھ کھڑے ہونے کی روایت رکھتے ہیں ۔زلزلہ2005کو ہی لیجئے ،دیکھیں کس طرح اہل پاکستان نے متاثرین کی مددکیلئے بھاگ دوڑشروع کردی تھی

۔اسی طرح سیلاب اور دوسری کسی بھی ناگہانی صورتحال میں اہل پاکستان کے جذبہ ایثاروقربانی کامظاہرہ دیکھنے میں آیا تو اہل کشمیربھی جہاں تک ممکن ہوسکا۔ نیک خواہشات کیساتھ آزمائشوں میں اہل پاکستان کیساتھ اخلاص کا مظاہرہ کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے ۔ لیکن یہاں اہل پاکستان و اہل آزادومقبوضہ جموں وکشمیرکے ایک دوسرے کے دُکھ و دردکو محسوس کرنا ،اور جذبہ ایثاروقربانی کے اظہارکے تذکرے کیساتھ آگے بڑھتے ہوئے گورکرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ(مبوضہ کشمیرکے علاوہ ) اہل پاکستان و اہل آزادکشمیرکے درمیان ظاہرہونیوالے تمام ترنیک جذبوں اور اظہارکے باوجودحالیہ سالوں سے’’دونوں طرف‘‘عجیب قسم کی بے یقینی کی کیفیت طاری ہے

۔ پاکستان کے سیاسی حالات میں اُتارچڑھائو کے اثرات نے آزادکشمیرکو پاکستان سے دُوری کی راہ پردھکیل رکھا ہے ،یااسکی کوئی اور وجہ ہے ؟یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے تاکہ سمجھا جاسکے کہ ’’بے یقینی ‘‘کا حقیقی سبب کیا ہے۔۔۔پاکستان کشمیریوں کی سفارتی اخلاقی سیاسی حمایت کاعزم رکھتا ہے ۔اور اس عزم کا اعادہ کرتا آیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ سفارتی ،اخلاقی ،سیاسی محاذپرکشمیریوں کی کیا مددوحمایت کی ؟؟اگرکہیں کچھ کیا ہے ،تو نتائج کو سامنے رکھ کر بات کرلیتے ہیں ۔سارے دعوئوں اور جہاد اور تحریک درتحریک نے کیا اثرات مرتب کئے ؟؟؟ 1۔بھارت نے عالمی سطع پرتحریک آزادی کو’’دراندازی ‘‘باورکروادیا

، اور اہل کشمیرجنرل اسمبلی میں پُرجوش تقریروں کے ثمرات سمیٹنے کے منتظررہے ۔جبکہ عملی طورپرحالات ریاست پاکستان و اہل کشمیرکے حق میں سازگارنہ بنائے گئے ۔چنانچہ کہاجاسکتا ہے ۔کہ پاکستان، سفارتی محاذ پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہا ہے ۔۔۔۔اخلاقی حمایت کی بات کی جائے توپاکستان یعنی اسلام آبادنے 5اگست 2019کے بھارتی اقدام کے ردعمل میں اگرریاست اور عوام کی سطع پرلاکھوں ،کروڑوں لوگ ’’آوازبلند‘‘کرنے باہرنکلے ہیں

۔تو کہا جاسکتا ہے ۔دعوی ٰ سچ ہوا۔سیاسی طورپراگربڑی پارٹیوں نے اگرکبھی کشمیرکے ایشوپرکوئی قابل ذکر حکمت عملی کیساتھ عوام میں گئی ہے تو لازمی طورپراِسکے اثرات بھی پانچ اگست دوہزاراُنیس کے دن سے نظرآنے لگتے ۔۔۔۔ جب سفارتی ،اخلاقی ،سیاسی حمایت کا یہ حال رہا ہے ۔اور ہے تو پھرکشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بننے میں کیوں شامل ہیں ؟؟ستم ظریفی کا یہ عالم یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قوتوں نے آزاد کشمیر میں خودغرضی کی سیاست کو فروغ دیتے ہوئے اپنے اپنے جتھے حکومتیں بنانے کیلئے کام میں لائے

۔اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے ۔عملی طورپربھیس کیمپ کے ہرمنصب پربراجمان اشخاص ،کشمیریوں کی بات ضرور کرتے ہیں ۔اور یہ بات اُسوقت شدومدسے کی جاتی ہے جب اسلام آبادمیں مخالف پارٹی کی حکومت ہو۔مگرپاکستان کے زیرانتظام ”آزادکشمیر” میں گڈ گورننس کے فروغ اور ”فکری و نظریاتی ”بنیادوں کو مضبوط کرنے کی تدابیرنہیں کی گئیں ، ریاستی انتظام و انصرام چلانے کے لئے ڈھانچہ بناتے ہوئے

”انتخابی سیاست” کوکھمبا،ٹونٹی ،ملازمت ،سکیموں کے بجائے ’’اجتماعی قومی سمت کے تعین کیساتھ ساتھ نظریہ کیمطابق ڈھالنے کی سبیل کی جاسکتی تھی۔سترکی دہائی میں پاکستان میں پروان چڑھنے والی طرزسیاست و جمہوریت کارُخ آزادکشمیر کی طرف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یاکم ازکم ’’پاکستانی سیاسی جماعتوں‘‘ کوآزادکشمیرمیں پاؤں جمانے کا موقع دیتے ہوئے انھیں فکری ونظریاتی طورپر مختلف سیاسی نظریات کاپرچارکرنیوالی شخصیات کاپرستار بنانے کے بجائے صرف پاکستان۔ قائداعظم اورنظریہ پاکستان کیساتھ منسلک کیاجاتا۔

ایسا نہیںکیا گیا ،قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے تشبیع دیکراسکی اہمیت واضع کردی سمجھ کر چلنے میں کیا امرمانع ہوا؟؟؟کل تک پاکستان کیلئے مرمٹنے کاجذبہ لیکر بڑھاپے میں جوان نظرآنیوالے سائبان (سید علی گیلانی)بھی ذہنی اذیت کا شکاربنے ۔کس نے اور کب کب اُنھیں اذیت پہنچائی ؟یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ بنے گی۔بھارت نے یہ کوشش بھی کی تھی فرقہ واریت کے ذریعے وادی میں تحر۴یک مزاحمت کو سبوتاژکرے

۔اُسے مُنہ کی کھانی پڑی کہ سید علی گیلانی کی قیادت میں حُریت قائدین اپنے اپنے حلقہ ہائے اثرکو سازش سے بچایا ۔یاسین ملک ہمارے قومی وجود کی حرارت سمجھے جاتے ہیں ۔جنہوں نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کے مقابلے میں ہمت و حوصلہ سے کام لیتے ہوئے خودکو جبرکے سامنے ڈھیرنہیں ہونے دیا۔اور پاکستان کو بھی کبھی گالیاں نہیں دیں کہ اُنکا نظریہ اہداف کا پتہ دیتا ہے نہ کہ گالم گلوچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ ،۔۔۔
آج یاسین ملک ہندوتواکی دہشتگردی کے نشانے پرہیں ،ہم کیا کررہے ہیں ؟جب تک خودمخلص نہ ہوں ،تو کوئی دوسرا ہماری باتوں کو کیوں سنجیدہ لے گا؟حقیقت پسندی اختیارکرلی جائے تو کیا حرج ہے ۔کب تک کشمیریوں کی مائوں ،بہنوں کی عزتوں ،بزرگوں جوانوں کی جانوں کی قیمت وصول کی جاتی رہیگی ؟؟ضروری ہے ہمیشہ لاشوں پراقتدارواختیارکی راہ پرچلتے ہوئے وقتی مفادات پرقوم کے اجتماعی اہداف کو قربان کیا جائے

،یہاں پاکستان کے ارباب اختیارکو دعوت ِفکر دینا مقصود ہے ۔کہ وہ سوچیں ،شہ رگ کیساتھ اخلاص سے عاری طرزعمل نے برائے نام یکجہتی اور بیان بازی سے پچھلے75سالوں میں کشمیریوں کو کیا فائدہ ملا؟ کہتے ہیں ،غلطیوں سے سیکھنے والی قومیں باوقارزندگی کی حقداربن جاتی ہیں ۔پاکستان کی قیادت نے ہردورمیں ’’مسئلہ کشمیر‘‘کو اپنی اپنی ترجیحات کی عینک سے دیکھاگیا ۔اب تو یہ آوزیں بھی آنے لگی ہیں کہ کشمیرکشمیرکی رٹ درحقیقت ریاست سے ریاست ،فردے فرد تک ،بعض اہداف کے حصول اور تحفظ کا ذریعہ ہے ۔اور یہ ایسی دکان ہے جسکی بندش ہونے کاخیال آنے پربھی کشمیرپرسیاست کرنیوالوں کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں ۔یہی وہ خبیثانہ طرزسیاست ہے جس کا اخلاقیات سے بھی تعلق نہیں

۔کبھی مقبول بٹ تختہ مشق بنے اور پھر شہیدہوئے ،سید علی گیلانی آخری سانس تک اپنے نظریہ پرکاربند رہے ۔اور اب حُریت قیادت پچھلے چودہ سو دن سے عتاب کاشکارہے ۔اور یہاں وہ لوگ پریشان ہیں جوعملی طورپراپنی ذات کے سوا کسی سے مخلص نہیں ۔لگتا ہے اب بھی کسی لاش کا انتظارکیا جارہا ہے ۔تاکہ پھر ایک عرصہ تک سب کی دکان چلتی رہے ۔لیکن اب یقینی طورپروقت بدل چکا ہے ۔اب دکانین بند ہونے کا وقت ہے

۔اور اگرکشمیریوں کی جان و مال ،عزت وآبروکے نام پرسیاسی ہویا نقل مکانی کرکے ساڑھے سات عشروں سے پاکستان و آزادکشمیرمیں موجیں کرنیوالے ہوں ،ان سب کو فائدہ نہیں پہنچے گا ۔البتہ حساب دیناہے ۔جوکہ اللہ کے سامنے بعد میں ہوگا ،مگریہاں دُنیا میں لازمی ہوگا۔اس لئے لاشوں کا انتظارکرنا چھوڑدیں ۔ اور چاہے ریاست پاکستان ہویا کوئی سیاسی ودیگرطبقہ ،کشمیرسے متعلہق اپنے اپنے دعوئوں کی کوئی عملی دلیل ہے پیش کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں